پلاسٹک بیگز معاشرتی المیہ 

سکھانے کے بھی کیا خوب طریقے ہواکرتے تھے‘ باتوں باتوں میں ہی آگہی دی  جاتی تھی۔ کسی زمانے میں پی ٹی وی پر ایک پروگرام میں ہم نے اس وقت یہ بات سنی تھی کہ جب ہم پرائمری کے طالبعلم تھے کہ اگر پلاسٹک کے شاپنگ بیگز وادی سندھ کی تہذیب کے عروج کے  زمانے میں ہواکرتے تو آج موہنجو دڑو اورہڑپہ کے کھنڈرات میں صحیح سالم نکلتے کیونکہ انکی عمر ہزاروں سال ہواکرتی ہے اسی طرح ایک پروگرام میں نہایت خوبصورت بات کی گئی کہ جب تک پلاسٹک بیگز پر پابندی نہیں لگائی جاتی تب تک شاپنگ بیگ کو ایسے ہی نہ پھینکیں بلکہ اس کو یا تو قینچی سے کاٹ کر چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرلیں یا پھر اس کو کم از کم ایک دوگرہیں دے دیا کریں اس سے یہ فائدہ ہوگا کہ نکاسی آب کی نالیوں میں رکاوٹ کا سبب نہیں بن سکیں گے یہ بات تیس سال بعد آج بھی یادہے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ عوامی شعورکی بیداری کاکتناپیارا اور دلچسپ انداز ہواکرتا تھا پھرہم نے میڈیاکو عوام میں سماجی شعورکی بیداری کے لیے استعمال کرنا چھوڑدیا اورحالات دگرگوں ہوتے چلے گئے پلاسٹک بیگز نے بدترین ماحولیاتی مسائل کو جنم دینا شروع کردیا اورماضی میں کسی بھی حکومت نے اس جانب خاطرخواہ توجہ مبذول کرنے کی زحمت گوارہ نہیں کی تاہم یہ اعزاز پی ٹی آئی کی سابق صوبائی حکومت کو حاصل ہوا اور اس نے پلاسٹک شاپنگ بیگز پر پابندی عائد کر د ی اور فیصلہ کیاکہ صوبہ میں صر ف قابل تحلیل شاپنگ بیگز ہی استعمال کیے جاسکیں گے یہ قابل تحلیل بیگز تین ماہ سے لے کر ایک سال کے عرصہ میں خود بخود تحلیل ہوجایاکریں گے اوراسکے بعد اگر کوئی بھی کارخانہ ان ڈیگریڈیبل شاپنگ بیگ بنائے گا اور کوئی بھی دکاندار اسے خریدے،بیچے یا پھراستعمال کرے گا اس کے خلا ف سخت ترین کاروائی ہوسکے گی شروع میں تو اس حوالہ سے بھرپور اقدامات ہوئے مگر بعدازاں معاملات کمزور پڑتے دکھائی دینے لگے  کیونکہ مخصوص مافیا پھر سے حکومتی اقدامات کو ناکام بنانے کے لیے متحر ک ہوچکاتھا اصل بات یہ ہے کہ یہ پابندی صرف شاپنگ بیگز کی حد تک ہی ہے۔ ابھی چپس،نمکو،بسکٹس،ٹافیوں سمیت کھانے پینے کی دیگر چیزوں کی پیکنگ کے لیے استعمال ہونے والے پلاسٹک کے حوالہ سے کوئی فیصلہ نہیں ہوسکاہے اور اس سلسلے میں فی الوقت تحقیق و مشاورت جاری ہے

اسی دوران برطانیہ سے ایک بہت دلچسپ اور اہم خبر موصول ہوئی ہے جس کے مطابق سائنسدانوں نے پلاسٹک بیگ کھانے والی سنڈی دریافت کرلی ہے جو مستقبل میں پلاسٹک بیگز سے پید اہونے والی آلودگی کے خاتمے کے لیے اہم کردار اد اکرسکتی ہے برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی کے محققین کاکہنا ہے کہ شہدکی مکھی کے چھتے سے موم کھانے والی سنڈی دریافت ہوئی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ سنڈی پلاسٹک کو بھی کھا سکتی ہے ان کے مطابق تجربا ت سے پتہ چلا ہے کہ یہ سنڈی پلاسٹک کی کیمیائی ساخت کو اسی طرح توڑ سکتی ہے جس طرح وہ مکھی کے چھتے کو ہضم کرلیتی ہے۔ یہ ایک انتہائی اہم دریافت ہے کیونکہ سائنسدانوں کے مطابق گیلیریا مولو نیلا نامی سنڈی ایک ہی گھنٹے میں پلاسٹک میں سوراخ کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ محققین پرامیدہیں کہ پلاسٹک کے کوڑے کے مسئلہ کو کم کرنے کے لیے کوئی تیکنیکی حل ڈھونڈا جاسکے گا۔ ماہرین کے بقول اگر پلاسٹک کو گلانے کے کیمیائی عمل کی شناخت ہوجاتی ہے تو اس سے پلاسٹک کے کوکوڑے سے نمٹنے کے عمل کی جانب کامیاب پیشرفت ہوسکے گی۔ اس ساری با ت کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ اس وقت ہر سال دنیا بھر میں 8کروڑ ٹن پلاسٹک اور پولی تھین بیگ بنائے جاتے ہیں اس پلاسٹک کااستعمال شاپنگ بیگز کی تیاری اور اشیائے خوردونوش کی پیکجنگ میں ہوتاہے جبکہ اس پلاسٹک کو مکمل طورپر گلنے سڑنے میں سینکڑوں سال لگ سکتے ہیں۔ اب اگر دیکھاجائے تو ترقی و سہولت کے نام پر انسان نے قانون قدرت میں مداخلت کی تو اسکے بھیانک نتائج سامنے آنے لگے انسان کی ترقی کی اسی دوڑ نے آج دنیا کو تباہی وبرباد ی سے دوچار کررکھا ہے اور اس تمام عمل میں سب سے زیاد ہ نقصان ہم جیسے ترقی پذیر معاشروں کو ہی پہنچتاہے۔

اگر ہم اپنے صوبہ کی بات کریں تو پلاسٹک شاپنگ بیگز کے مضر اور ماحول دشمن اثرات ہر جگہ نظر آتے ہیں۔صرف نکاسی آب کے سسٹم کو جو نقصان پہنچتاہے اس پر پھر حکومت کے اضافی کروڑوں روپے لگ جاتے ہیں اسی طرح شعبہ زراعت کو بھی تاقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے جس سے ہماری زرعی پیداوار بھی متاثرہوتی جارہی ہے پھرپلاسٹک کے اسی کوڑے کو جب جلایا جاتا ہے تو خوفناک فضائی آلودگی جنم لیتی ہے چنانچہ اگر ایک طرف صوبائی حکومت کی طرف سے ان ڈی گریڈیبل پلاسٹک بیگز پر پابندی خوش آئندتھی اور اب اس کے خلاف کاروائیاں جاری رکھنے کی حکمت عملی قابل تعریف ہے  تو دوسری طرف اب پلاسٹک کو کھانے اورہضم کرنے والی سنڈی کی دریافت بھی اس امرکاثبوت ہے کہ قدرت کو شاید نادان انسان پر رحم آگیاہے اور اس نے اپنی طرف سے بھی ایک ذریعہ بھجوادیاہے۔ اب ہمارے ہاں بھی اس پر تحقیق کی ضرورت ہے اور اگر صوبائی حکومت پلاسٹک کے خلاف اپنی مہم میں اس تحقیق کو بھی شامل کرلے تو یہ سونے پرسہاگہ ہوگا۔