اٹھائیس مئی: پیٹرول‘ ڈیزل اور مٹی کے تیل سمیت پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا اطلاق ہوا۔ وفاقی حکومت کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ناگزیر تھا کیونکہ اِس شعبے کو دی جانے والی رعایت (سبسڈی) کے باعث مئی دوہزاربائیس کے پہلے پندرہ دنوں میں قومی خزانے کو (مبینہ طور پر) ”55 ارب“ کا نقصان ہوا۔ لمحہئ فکریہ ہے کہ حکومت کے ماہانہ اخراجات 42 ارب جبکہ پیٹرولیم مصنوعات پر دی جانے والی رعایت 120 ارب روپے ہے تاہم پیٹرولیم قیمتوں میں اضافے کی بنیادی وجہ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی جانب سے یہ شرط بتائی گئی کہ جب تک پاکستان پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں دی جانے رعایت کم نہیں کرے گا‘ اُس وقت تک مزید قرض نہیں دیا جائے گا اُور حکومت کا کہنا ہے کہ مختلف قسم کے ایندھن پر فی لیٹر 40 روپے سبسڈی دی جا رہی ہے!اُنتیس مئی: خیبرپختونخوا کے پبلک ٹرانسپورٹرز اور کاروباری طبقے نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تیس روپے فی لیٹر اضافے کے باعث ”مہنگائی کی زیادہ شدید نئی لہر“ کی پیشگوئی کرتے ہوئے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ عوام کی کمزور معاشی حالت کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے۔ پبلک ٹرانسپورٹ اونرز ایسوسی ایشن کے صدر خان زمان آفریدی کے مطابق ”پبلک ٹرانسپورٹ گاڑیوں کے مالکان نے مجبوری کی حالت میں کرایہ یک طرفہ طور پر بڑھا دیا ہے کیونکہ موجودہ صورتحال میں وہ اپنی گاڑیاں چلانے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ خیبر پختونخوا کے مختلف بین اضلاعی اور صوبائی راہداریوں (روٹس) پر کراے کی شرح میں صرف 7 فیصد اضافہ کیا گیا ہے جبکہ پٹرول و ڈیزل کی قیمت میں قریب 16 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اِس مرحلہئ فکر پر 3 نکات لائق توجہ ہیں۔ پہلا یہ کہ خیبرپختونخوا کے پبلک ٹرانسپورٹرز نے ازخود کرایوں میں اضافہ کیا جبکہ یہ کام ٹرانسپورٹ اتھارٹی نامی حکومتی ادارے کا ہے کہ وہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ردوبدل کے ساتھ ہی فوری طور پر نئے کرائے نامے کا اجرأ کرتی
لیکن ایسا نہیں کیا گیا‘دوسرا نکتہ یہ ہے کہ پبلک ٹرانسپورٹ کی اکثر گاڑیاں ایندھن کیلئے ”کمپریسڈ نیچرل گیس (سی این جی)“ کا انتخاب کرتی ہیں‘ جن کے استعمال سے پیٹرول و ڈیزل کے مقابلے زیادہ بچت ہوتی ہے لیکن اِس بچت کا رتی بھر حصہ بھی عوام تک منتقل نہیں کیا جاتا۔ ٹرانسپورٹرز کا کہنا ہے کہ اٹھائیس مئی سے لاگو ہونے والی پیٹرول و ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے سے قریب ایک ہفتہ قبل ’سی این جی‘ کی قیمت میں اضافہ کیا گیا تھا لیکن اِس کے باوجود کرائے کی شرح میں ”فوری اضافہ“ نہیں کیا گیا۔پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بعد کی صورتحال کا جائزہ لینے کیلئے بین الصوبائی پبلک ٹرانسپورٹروں کے ہنگامی اجلاس نے وفاقی حکومت پر زور دیا کہ وہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے متعلق اپنا فیصلہ واپس لے کیونکہ ایندھن کی قیمتوں میں اضافے سے صنعت کاروں‘ تاجروں اور یومیہ محنت مزدوری کرنے والوں (ڈیلی ویجرز) کے معاشی مسائل میں اضافہ ہوگا۔ اِس سلسلے میں ”سرحد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز“ کے صدر حسنین خورشید نے بھی پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کو کمزور قومی معیشت کے لئے ”بُری خبر“ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ”پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بعد صنعتی پیداوار کی لاگت میں اضافہ ہوگا جس سے ملک میں افراط زر (مہنگائی) کی نئی لہر آئے گی۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے عام آدمی کی قوت خرید پہلے ہی کم ہو چکی ہے
بالخصوص کورونا وبا اور دہشت گردی کی وجہ سے خیبرپختونخوا کے کاروباری طبقات کو مشکلات کا سامنا ہے لیکن پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے رہی سہی کسر بھی نکل جائے گی اور اب موجودہ صورتحال میں کاروبار یا صنعت چلانا انتہائی مشکل ہو گیا ہے۔“ انہوں نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ خیبرپختونخوا لہ کاروباری برادری کی معاونت کے لئے مناسب اقدامات کرے۔ تاجروں‘ دکانداروں اور صنعتکاروں کی نمائندہ تنظیم سرحد چیمبر کی جانب سے بجلی‘ گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کو غیرمنصفانہ قرار دیتے ہوئے اِسے نازک معیشت کو تباہی کی طرف دھکیلنے کے مترادف اقدام سے تعبیر کیاگیا ہے اور کہا گیا ہے کہ چونکہ ایندھن کی لاگت زیادہ ہو گئی ہے اِس لئے صنعت کار یا تو صنعتیں بند یا پھر کام کاج کے اوقات کم کریں گے‘ جس سے بے روزگاری بڑھے گی۔ سرحد چیمبر کی جانب سے یہ تجویز بھی دی گئی ہے کہ ”عوام پر بوجھ ڈالنے کے بجائے معاشی معاملات پر قابو پانے کیلئے غیر ضروری حکومتی اخراجات پر قابو پایا جائے۔ لمحہئ فکریہ ہے کہ درآمدات و برآمدات میں فرق‘ زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی اور تجارتی خسارے جیسے نتائج معاشی پالیسیوں میں عدم مطابقت کی وجہ سے ظاہر ہوئے ہیں اور ملکی معیشت کو مستحکم کرنے کیلئے ضروری ہے کہ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے اور صنعتی و کاروباری طبقات (اسٹیک ہولڈرز) کے ساتھ مشاورت کے بعد معاشی فیصلے کریں۔