پہلا نکتہ: سماجی رابطہ کاری کی موجودہ ترقی یافتہ اشکال درحقیقت اُن ارتقائی مراحل کا نتیجہ ہے‘ جس میں خدمات کو بہتر بنانے‘ انسانی فطرت کا بنیادی اصول کہ یہ ہم عصروں پر اپنی سبقت برقرار رکھے اور صارفین کی طلب جیسے عوامل کا عمل دخل رہا ہے اور انہی اصولوں پر آج بھی کاروباری حکمت عملیاں یا نت نئے تصورات کو عملی جامہ پہنایا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا کا آغاز ستر کی دہائی میں ہوا جس کا بنیادی تصور کمپیوٹروں کو ایک دوسرے سے منسلک کرنا یعنی ’نیٹ ورکنگ‘ تھا۔ یہی ’نیٹ ورکنگ‘ بعدازاں کمپیوٹروں کے ذریعے بات چیت کا ذریعہ بنی اور ابتدا میں جس بات چیت کا تبادلہ صرف چند کمپیوٹروں کے درمیان ممکن تھا۔
اُس نے اجنبی اور غیراجنبی کے تصورات کو ختم کر دیا اور دنیا ”گلوبل ویلیج“ کہلانے لگی اور پھر وہ مرحلہ بھی آیا جب ”گلوبل ویلیج“ کے باسیوں کے قواعد و ضوابط متعارف ہونے لگے اور آج کی ڈیجیٹل دنیا میں کوئی ایک بھی سہولت ایسی نہیں جسے حاصل کرنے سے پہلے اُس کے قواعد و ضوابط (ٹرمز اینڈ کنڈیشنز) کو حرف حرف تسلیم کرنا یا اُن سے متفق ہونا ضروری نہ ہو لیکن ”ڈیجیٹل خواندگی“ کی تاریک پہلو یہ ہے کہ اگر کوئی صارف کسی ڈیجیٹل ادارے کی خدمات حاصل کرتے وقت جملہ شرائط (قواعدوضوابط) کو تسلیم تو کرتا ہے لیکن اُنہیں پڑھنے جیسی مشقت نہیں کرتا اور یہی وجہ ہے کہ سوشل میڈیا وسائل کے بارے میں عوام و خواص کی معلومات خاطرخواہ جامع نہیں ہیں۔
دوسرا نکتہ: پاکستان میں انٹرنیٹ سے منسلک و دیگر ڈیجیٹل آلات استعمال کرنے والے صارفین کی رہنمائی کا نظام نہ تو نصاب تعلیم کا حصہ ہے اور نہ ہی سماجی سطح پر اِس سے متعلق تعلیم و تربیت کا خاطرخواہ اہتمام موجود ہے۔ اِس کمی کو پورا کرنے اور ’ڈیجیٹل آلات‘ بالخصوص ’ڈیجیٹل سپیس کا صارف یعنی گلوبل ویلیج کا باسیوں کیلئے ہدایت و رہنمائی کا نظام وضع کیا گیا جس کا بنیادی مقصد ’ڈیجیٹل اسپیس‘ استعمال کرنے کے عمل کی نگرانی اور اِس سے متعلق مشورہ فراہم کرنا ہے۔
اِس سلسلے میں پہل کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ”ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن“ کی جانب سے ایک ”ہیلپ لائن“ بھی قائم کی گئی جس نے گزشتہ پانچ برس کے دوران اپنے تجربات اور اُن کے حاصل نتائج سے متعلق تفصیلی رپورٹ جاری کی ہے۔ قابل افسوس بات یہ ہے کہ مذکورہ ”ہیلپ لائن“ سے بذریعہ ٹیلی فون رابطہ کرنے والوں کی اکثریت نے ڈیجیٹل ایپس کے ذریعے ہراساں کرنے کی شکایات درج کروائی ہیں اور اِس سبھی زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ ہراسگی کی شکایات کرنے والوں میں چھیاسی فیصد خواتین (لڑکیاں) ہیں۔
ان میں سے زیادہ تر ٹیلی فون کالز میں واٹس ایپ‘ فیس بک اور دیگر مقبول سوشل فورمز کے ذریعے کی گئیں اور اِن کالز کے ذریعے سوشل میڈیا پر ہراساں کئے جانے یا بلیک میل کرنے کے الزامات شامل تھے۔ علاوہ ازیں سوشل میڈیا صارفین نے اِس بات کی شکایات درج کروائیں کہ اُن کی تصاویر بنا اجازت یا رضامندی حاصل کئے بغیر استعمال کی گئی ہیں۔ سوشل میڈیا کس طرح آسانی (سہولت) سے مشکل (زحمت) بن رہا ہے اِس بات کا اندازہ اعدادوشمار سے لگایا جا سکتا ہے کہ پانچ برس کے دوران مذکورہ ’ہیلپ لائن‘ کو مجموعی طور پر گیارہ ہزار آٹھ سو سے زائد شکایات موصول ہوئی جن کی ماہانہ اوسط 370کیسز بنتے ہیں!
ظاہر سی بات ہے کہ سائبر وسائل کا استعمال کرتے ہوئے خواتین یا دیگر منجملہ صارفین کو ہراساں کرنا کسی بھی صورت قابل قبول نہیں اور بالخصوص پاکستان میں یہ رجحان خواتین (لڑکیوں) کیلئے بڑھتا ہوا مسئلہ ہے‘ جس کے لئے حکومتی سطح پر خاطرخواہ گہرائی سے سوچ بچار اور قومی سطح پر اِس مسئلے سے نمٹنے کے لئے لائحہ عمل موجود نہیں ہے۔ تیسرا نکتہ: پاکستان میں سوشل میڈیا سمیت ڈیجیٹل وسائل استعمال کرنے والی خواتین (صارفین) کے شخصی و شناختی تحفظ کے لئے نئی حکمت عملیاں اور قواعد ضوابط وضع کرنے کی ضرورت ہے۔
علاوہ ازیں ضرورت اِس اَمر کی بھی ہے کہ سوشل میڈیا صارفین کی تعلیم و تربیت اور آگہی و شعور میں انہیں ’سائبر وسائل‘ کے محفوظ استعمال سے بھی آگاہ کیا جائے اور اِس سلسلے میں تدریسی اداروں کے بعد ذرائع ابلاغ کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ”ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن“ کو موصول ہونے والی شکایات کا باقاعدگی سے جائزہ لیا جانا چاہئے اور اِن کے فوری یا جلد از جلد ازالے کی کوشش میں شکایت درج کروانے والوں کو ہر مرحلے پر آگاہ کرتے رہنا چاہئے تاکہ سوشل میڈیا کا غلط استعمال کرنے والے اپنی حرکتوں سے باز آ جائیں اور اُنہیں علم ہو کہ اپنے خلاف کسی شکایت کی صورت میں اُنہیں کن قوانین و قواعد شکنی میں سزاؤں سے واسطہ پڑ سکتا ہے۔
”ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن“ غیرسرکاری نجی تنظیم ہے‘ جس نے ”ہیلپ لائن“ کے ذریعے سوشل میڈیا صارفین اور دیگر ڈیجیٹل آلات استعمال کرنے والوں کی شکایات تو اکٹھا کر لی ہیں لیکن وہ اِن شکایات کے حسب قانون و قواعد حل کرنے کا اختیار نہیں رکھتی۔ بنیادی ذمہ داری حکومتی اداروں کی ہے جو سائبر قوانین و قواعد میں موجود سقم (اگر ہیں تو) اُن سے حکومت کو آگاہ کریں تاکہ اِس سلسلے میں ضروری اور ترمیمی قانون سازی کی جا سکے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ڈیجیٹل استعمال سے متعلق قوانین و قواعد پر نظرثانی اور اِن کا تجزیہ بھی جاری رہنا چاہئے اور جہاں ضروری ہو وہاں وقتاً فوقتاً ترامیم کی جائیں بالخصوص قوانین و قواعد میں خامیوں پر غور ہونا چاہئے‘ جن کی وجہ سے ”سائبر کرائمز“ کے مجرم جرمانے ادا کر کے سنگین جرائم کا ارتکاب کرنے کے باوجود بھی بچ جاتے ہیں!
تاہم سوشل میڈیا قوانین و قواعد پر نظرثانی کا ہرگز ہرگز مطلب ”آزادیئ اظہار“ پر پابندی عائد کرنا نہیں‘ ضرورت قوانین و قواعد میں موجود خامیاں (سقم) دور کرنے کی ہے۔ ڈیجیٹل وسائل بشمول سوشل میڈیا عصر حاضر کی ضروریات میں شامل ہیں۔ اِن ”خیر محض“ وسائل کے ذریعے درس و تدریس بھی ہو رہی ہے اور طلبہ کو تحقیق میں بھی مدد مل رہی ہے اِس لئے سائبر اسپیس کو سماج اور سماج کو سائبر اسپیس سے الگ نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی اِنہیں الگ دیکھا جانا چاہئے۔
پاکستان میں سائبر قوانین و قواعد پر عمل درآمد کیلئے وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) کی خصوصی شاخ ”سائبر کرائم ونگ“ موجود ہے جس نے چند نہایت ہی مفید خدمات سرانجام دی ہیں تاہم اِس ادارے کی مذکورہ سائبر کرائم ونگ شعبے سے وابستہ اہلکاروں کی تکنیکی مہارت میں اضافے اور اِس ونگ کی ملک بھر میں مزید شاخیں قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ تجویز ہے کہ ہر تعلیمی ادارے کی سطح پر شکایات کے عمومی مراکز قائم کئے جائیں جہاں طلبہ کسی بھی مسئلے کی صورت رجوع کریں اور اگر اِس سلسلے میں ابتدأ اعلیٰ تعلیم کے اداروں سے کی جائے تو اِس کے خاطرخواہ بہتر نتائج برآمد ہوں گے۔ تعلیم و تربیت کا یہ سلسلہ صرف بچوں کیلئے ہی نہیں بلکہ الگ سے والدین کے بھی ہونا چاہئے کہ وہ اِس ”پُرخطر گوبل ویلیج“ میں اپنے اہل و عیال کی حفاظت کس طرح عملاً یقینی سکتے ہیں۔