شریف شکیب
خیبر پختونخوا حکومت نے انصاف صحت کارڈکوقانونی شکل دینے کیلئے بل تیارکرلیاہے تاکہ آنے والی کوئی بھی حکومت اسے ختم نہ کر سکے خیبرپختونخوایونیورسل ہیلتھ کوریج بل کی صوبائی اسمبلی سے منظوری کے بعد صحت کارڈکو مستقل قانونی شکل مل جائے گی خیبرپختونخوامیں صحت کارڈپلس پرگزشتہ 20ماہ میں 11لاکھ 63 ہزارسے زائد مریضوں پر 28 ارب 52 کروڑ روپے کے اخراجات آئے ہیں‘محکمہ صحت کے اعدادوشمارکے مطابق یکم جولائی 2021سے 27اپریل 2022تک سرکاری ہسپتالوں میں ایک لاکھ 7ہزار814مریضوں کاعلاج ہواجن پر 2ارب 80کروڑ 82لاکھ خرچ ہوئے‘نجی ہسپتالوں میں 4لاکھ 65 ہزار 812 مریضوں کاعلاج ہوا جن پر 17ارب 61 کروڑ 88 لاکھ کے اخراجات آئے جبکہ سرکاری تدریسی ہسپتالوں میں 94ہزار920مریضوں کاعلاج ہوا جن پر 2ارب 87کروڑ 30لاکھ کے اخراجات آئے گذشتہ گیارہ مہینوں کے دوران مریضوں پر کل 15ارب 43کروڑ کے اخراجات آئے‘ نجی ہسپتالوں کو صحت کارڈ سے اب تک18ارب 85کروڑ51لاکھ 23 ہزار کامنافع ہواہے جبکہ ایم ٹی آئی ہسپتالوں کو 4ارب 35کروڑ72لاکھ کا منافع حاصل ہوا جبکہ ضلعی سرکاری ہسپتالوں کو 3ارب 71کروڑ کاحصہ ملا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ سرکاری ہسپتالوں کے مقابلے میں شہری نجی ہسپتالوں میں علاج کو ترجیح دیتے ہیں۔صحت کارڈ بلاشبہ مہنگائی سے متاثرہ شہریوں کے لئے ایک نعمت ہے۔ مرض کی تشخیص، علاج اور ادویات کی قیمتوں میں گذشتہ چند سالوں کے اندر پانچ گنا اضافہ ہوا ہے۔ غریب،متوسط اور ملازمت پیشہ لوگوں کے لئے اپنے خرچے پرعلاج کروانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔صحت کارڈ کے تحت ہسپتال میں داخل ہرقسم کی بیماری میں مبتلا افراد کا بلاتحصیص مفت علاج کیاجاتا ہے۔صرف شناختی کارڈ کی چند کاپیاں اور فارم بھر کر جمع کروانا ہوتا ہے۔پشاور کے سرکاری تدریسی ہسپتالوں میں رش زیادہ ہونے کی وجہ سے صحت کارڈ کے لوازمات کو پورا کرنے میں تھوڑا وقت لگتا ہے جبکہ پرائیویٹ ہسپتالوں میں عملہ خود مریض کی طرف سے لوازمات پورا کرتا ہے اس سہولت کی وجہ سے لوگ پرائیویٹ ہسپتالوں میں علاج کو ترجیح دیتے ہیں۔مفت علاج کی سہولت کو قانونی شکل دینے کا فائدہ عام آدمی کو ہوگا۔ ہمارے ہاں ایک غیر صحت مندانہ روایت یہ چلی آرہی ہے کہ نئی حکومت اپنی پیش رو کے ترقیاتی اور فلاحی پروگراموں کو ختم کرنا اپنا حق سمجھتی ہے۔اربوں روپے کی لاگت سے شروع کئے گئے منصوبے بیک جنبش قلم ختم کرنے سے نہ صرف عوام کا نقصان ہوتا ہے بلکہ ان منصوبوں پر خرچ ہنے والے قومی وسائل بھی ضائع ہوجاتے ہیں۔ صحت کارڈ کی بدولت نجی شعبے کو صحت سہولیات کی فراہمی پر سرمایہ کاری کی ترغیب ملتی ہے۔ زیادہ منافع ہونے کی بدولت نجی اداروں نے اپنی سہولیات بھی بہتر بنائی ہیں۔حکومت صحت کی طرح پرائیویٹ سیکٹر کو تعلیم کے شعبے کو بھی مراعات اور سہولیات فراہم کرے تو شرح خواندگی بڑھانے کے ساتھ معیاری تعلیم کے فروغ میں بھی مدد مل سکتی ہے۔ حکومت تنہا تمام شعبوں میں لوگوں کو بنیادی سہولیات فراہم نہیں کرسکتی۔ ترقی یافتہ معاشروں میں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ ہی تمام شعبہ ہائے زندگی میں تیز تر ترقی کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔خیبر