شبیر حسین امام
رواں مالی سال (دوہزاراکیس بائیس) کے ابتدائی آٹھ ماہ (جولائی سے فروری) کے درمیان پاکستان کے تجارتی خسارے میں ”82.2 فیصد“ اضافہ ہوا۔ وفاقی ادارہ شماریات کے جاری کردہ اِن اعدادوشمار کے مطابق مذکورہ عرصے میں قریب 32 ارب ڈالر کی درآمدات ہوئیں جبکہ اِس سے گزشتہ مالی سال کے ابتدائی آٹھ ماہ میں 17.535 ارب ڈالر کی درآمدات ہوئی تھیں جبکہ رواں مالی سال کے ابتدائی آٹھ ماہ میں ہوئی برآمدات کا حجم 20.547 ارب ڈالر رہا۔ آسان الفاظ میں بیان کیا جائے تو پاکستان کی درآمدات (بیرون ملک سے خریداری) زیادہ جبکہ برآمدات (بیرون ملک فروخت) میں دس سے گیارہ ارب ڈالر کا فرق پایا جاتا ہے اور اِسی فرق کو پورا کرنے کے لئے ہر سال حکومت قرض لینا پڑتا ہے لیکن درآمدات و برآمدات میں فرق ختم کرنے کے لئے پائیدار اقدامات نہیں کئے جاتے جس کی وجہ سے قومی قرض کے حجم میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے اور یہ 50 کھرب روپے سے زائد ہو چکا ہے۔ اِس پوری صورتحال کا دباؤ پاکستانی روپے پر دیکھا جا سکتا ہے جو تاریخ کی بلندترین سطح یعنی 200 روپے فی ڈالر سے تجاوز کرتے ہوئے گزشتہ 9ماہ کے دوران مجموعی طور پر 26 روپے اپنی قدر گنوا چکا ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ تجارت میں غیرملکی کرنسی پر انحصار کس طرح کم کیا جائے تاکہ روپیہ مستحکم ہو اور پاکستان کو کم سے کم امریکی ڈالروں کی ضرورت پڑے۔ اِس سلسلے میں پاکستان کے ہمسایہ ممالک سے تجارت مقامی کرنسی میں کرنے کا تصور قابل ذکر ہے اور اِسے عملی جامہ پہنانے کیلئے بات چیت کا آغاز گزشتہ دور حکومت میں ہو چکا ہے۔ ستمبر دوہزاراکیس کے پہلے ہفتے میں قانون ساز ایوان بالا (سینیٹ) کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ (فنانس) کو بتایا گیا تھا کہ پاکستان یہ چاہتا ہے کہ ہمسایہ ملک افغانستان کے ساتھ تجارت غیرملکی کرنسی (امریکی ڈالر) کی بجائے پاکستانی روپے میں کی جائے تاکہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر پر بوجھ کم ہو۔ اُس وقت کے وزیرخزانہ و آمدن (منسٹر فنانس اینڈ ریونیو) شوکت ترین کی جانب سے جاری اخراجات (کرنٹ اکاؤنٹ) خسارے پر قابو پانے کی اِس تجویز کا نہ صرف سینیٹ اراکین بلکہ ’پاکستان بزنس فورم‘ نامی درآمد و برآمدکنندگان کی نمائندہ تنظیم نے بھی خیرمقدم کیا تھا۔ مقامی کرنسی میں تجارت کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان سے برآمدات کیلئے افغان کرنسی اور افغانستان سے درآمدات کی صورت پاکستانی کرنسی میں ادائیگی کی جائے گی۔ اِس طرح دونوں ممالک کو باہمی تجارت کیلئے امریکی ڈالروں کی ضرورت نہیں رہے گی اور صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ افغانستان کو بھی فائدہ ہوگا‘ جس کی معیشت اُس وقت اور آج بھی ایک مشکل دور سے گزر رہی ہے۔ ذہن نشین رہے کہ سال 2020ء میں افغانستان کی اقتصادیات 1.9فیصد کم ہوئی تھی۔ درحقیقت پاکستان اور افغانستان کی اقتصادیات پر اِس لئے بھی دباؤ ہے کیونکہ یہ دونوں ممالک غیرضروری طور پر ’امریکی ڈالر‘ پر انحصار کرتے ہیں۔ افغانستان میں فی کس آمدنی 507ڈالر جبکہ جنوری 2022ء میں جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں فی کس سالانہ آمدنی 1666 ڈالر یعنی (چار ماہ قبل) 2 لاکھ 66ہزار 614 روپے تھی اور پاکستان کی کل اقتصادیات کا حجم 346.76 ارب ڈالر تھا۔یہ اعدادوشمار قومی اسمبلی کی ’نیشنل اکاؤنٹس کمیٹی‘ کے 104ویں اجلاس میں حکومت کی جانب سے ’بیس جنوری دوہزاربائیس‘ کے روز پیش کئے گئے تھے۔ پاک افغان تجارت کو مقامی کرنسیوں میں منتقل کرنے کی ضرورت پاکستان کے نکتہئ نظر سے اہم تھی۔ افغانستان کی اقتصادیات 80فیصد بیرونی امداد پر انحصار کرتی ہے۔ پاکستان کیلئے نہ صرف افغانستان بلکہ دیگر ہمسایہ ممالک چین و ایران کے ساتھ بھی مقامی کرنسی (بارٹر سسٹم) ہی کے ذریعے تجارت ہونی چاہئے۔ پاکستان سے افغانستان کو چاول‘ مچھلی‘ مرغی‘ مال مویشی‘ سبزی و دیگر خوردنی اجناس برآمد ہوتی ہیں جبکہ افغانستان سے پھل و دیگر زرعی پیداوار و معدنی اشیا (سیب‘ انار‘ انگور‘ خشک میوہ جات اور سوپ سٹونز وغیرہ) درآمد کی جاتی ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان سرحد تجارت کیلئے چوبیس گھنٹے اور دن رات (چوبیس گھنٹے) کھلی رہتی ہے جبکہ پاک افغان تاجروں کو ہمیشہ سے اِس بات کی شکایت رہی ہے کہ افغانستان تجارت کیلئے جانے والا سازوسامان کی جانچ پڑتال ایک سے زیادہ مقامات پر ہوتی ہے اور غیرمتعلقہ اداروں کے اہلکار بھی چیکنگ کرتے ہیں جس کی وجہ سے سامان کی ترسیل میں تاخیر اور ترسیلی اخراجات (لاگت) میں اضافہ ہوتا ہے۔ غیرملکی کرنسی پر انحصار کم کرنے سے تجارت کے حجم پر تو کوئی فرق نہیں پڑے گا بلکہ روپے کی قدر مستحکم ہونے کے علاؤہ پاکستان اُس نفسیاتی دباؤ سے بھی باہر آ سکتا ہے جو غیرملکی کرنسی (امریکی ڈالر) میں ”لازماً“ تجارت کرنے کی وجہ سے موجود ہے تاہم تصویر کے دو رخ ہیں۔ جہاں قومی فیصلہ سازوں اور پاک افغان تاجروں سمیت کسٹم کلیئرنگ ایجنٹوں کی ایک تعداد کی سوچ میں فرق پایا جاتا ہے جنہوں نے اٹھائیس مئی دوہزار بائیس کے روز ہوئے اجلاس میں ”پاک افغان طورخم سرحد“ کے راستے پڑوسی ممالک کے ساتھ ”بارٹر ٹریڈ“ کی نئی پالیسی کو مسترد کیا اور اعلان کیا کہ اسے عدالتوں میں چیلنج کیا جائے گا جبکہ اِس کے خلاف مقامی سطح پر مزاحمتی مہم کا آغاز بھی کیا جائے گا۔ مذکورہ اجلاس طورخم میں ہوا جس میں خیبر چیمبر آف کامرس‘ آل خیبرپختونخوا کمرشل ایسوسی ایشن‘ مقامی کلیئرنگ ایجنٹس اور ٹریڈ یونینز کے اراکین نے شرکت کی۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مختلف مقررین نے ”بارٹر ٹریڈ پالیسی“ کی صورت سینکڑوں تاجروں کے بے روزگار ہونے کے اندیشے کا اظہار بھی کیا کیونکہ (مبینہ طور پر) اِس سے مقامی برآمد کنندگان کو مالی نقصان ہوگا کیونکہ پاکستانی برآمدات حجم میں بہت زیادہ اور مہنگی ہیں جبکہ افغانستان سے درآمدات بہت سستی ہیں۔قطع نظر اعتراضات اور تنقید اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت میں بہرحال تیزی لانا ضروری ہے جس میں دونوں ممالک کا فائدہ ہے اور پورے خطے پر اس کے مثبت اثرات مرتب ہونگے۔