صوبائی دارالحکومت پشاور میں منشیات کے عادی افراد کے خلاف جاری آپریشن کے دوران آٹھ سو افراد کوگرفتارکرلیاگیا۔جن میں بارہ خواتین بھی شامل ہیں۔طبی معائنے کے بعد ان میں سے دوسو افراد میں ایچ آئی وی،ایچ سی وی اور ایچ بی ایس کی تصدیق ہوئی ہے‘موذی مرض ایڈز کا وائرس جن افراد میں پایاگیا ہے ان افراد کامحکمہ سماجی بہبود، الخدمت ہسپتال،دوست فاونڈیشن اور کیئر فاونڈیشن کے بحالی مراکز میں علاج کیاجارہا ہے۔ایچ آئی وی، ایچ سی وی اور ایچ بی ایس کے مریضوں کو مزید علاج کیلئے اسلام آباد کے نجی فلاحی ہسپتال منتقل کیاجائے گا۔ دوران پور میں کورونا مریضوں کیلئے مختص ہسپتال کو عارضی طور پر نشے کے عادی افراد کی بحالی کے مرکز میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ نشے کے عادی عام افراد کا وہاں علاج کیاجاسکے۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں کو احکامات جاری کئے گئے ہیں کہ وہ نشے کے عادی افراد کو مال سپلائی کرنے والوں کے خلاف کاروائیوں میں مزید تیزی لائیں اور منشیات کی سپلائی لائن کو مکمل طور پر ختم کریں۔گرفتار افراد کو تین ماہ تک مفت علاج کرنے کے بعد ورثا کے حوالے کیا جائے گا۔منشیات کے عادی افراد اور ڈرگ سپلائرز کے خلاف نوشہرہ،چارسدہ اور ضلع خیبر میں بھی آپریشن شروع کرنے کا فیصلہ کیاگیا۔ہمارے قانون کے مطابق منشیات کے استعمال، نقل وحمل اور کاروبار کی سختی سے ممانعت ہے اور اس پر سخت سزائیں مقرر ہیں لیکن حیرت کی بات ہے کہ پیرزکوڑی پل سے کارخانومارکیٹ تک شاہراہ کے کنارے، پلوں کے نیچے، گرین بیلٹ اور نالوں میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ سرعام ہیروئن، آئس اور شیشے کا نشہ کررہے ہوتے ہیں۔
منشیات کے عادی افراد میں ایچ آئی وی کی تصدیق انتہائی تشویش ناک انکشاف ہے۔اگر اس کے تدارک کیلئے سخت اقدامات نہ کئے گئے تو یہ ناقابل علاج مہلک مرض معاشرے میں پھیل سکتا ہے جس کے نتائج کورونا اور کینسرسے بھی زیادہ ہولناک ثابت ہوسکتے ہیں۔ نجی شعبے میں منشیات کے عادی افراد اور ذہنی امراض کا علاج کرنے والے غیر سرکاری ادارے ہورائزن کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر خالد مفتی نے بتایا کہ منشیات کے عادی افراد میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اچھے خاندانوں کے نوجوان بھی شامل ہیں جو بے روزگاری، گھریلو تنازعات، خاندانی چپقلش، ذہنی دباؤ، خوف، ناکامی اور مایوسی کی وجہ سے نشے میں عارضی سہارا ڈھونے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر مستقل طور پر اس لت میں مبتلا ہوتے ہیں۔
صرف حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اس سماجی بیماری کا سد باب نہیں کرسکتے۔نشے کے عادی افراد کے والدین، بہن بھائی، بچوں، رشتہ داروں کے علاوہ اساتذہ، علمائے کرام، دانشوروں، اہل قلم،سماجی تنظیموں، انسانی حقوق کے اداروں اور متعلقہ سرکاری محکموں کو منشیات کی لعنت پر قابو پانے اور نوجوانوں کو اس کا شکار ہونے سے بچانے کیلئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔خود کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑنے والے ان نوجوانوں کی بحالی پر حکومت کو خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔تاکہ یہ لوگ معمول کی زندگی کی طرف لوٹ آئیں اور معاشرے کی فلاح و بہبود اور ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے کے قابل ہوسکیں۔