پنشن: شراکتی مراعات

صوبائی قانون ساز ایوان نے سرکاری ملازمت کی مدت مکمل ہونے کے بعد ملنے والی مالی مراعات کی سہولت ختم کرنے اور ”شراکتی پنشن“ متعارف کرانے کا مجوزہ قانون منظور کیا ہے۔ ڈپٹی سپیکر کی صدرات میں ایوان نے سرکاری علاج گاہوں کیلئے اصلاحات‘ میڈیکل ریلیف انڈومنٹ فنڈ کے خاتمے اور محکمہ ٹرانسپورٹ کے عارضی ملازمین کو مستقل کرنے سے متعلق قوانین بھی منظور کئے‘ ایوان نے متفقہ طور پر خیبرپختونخوا سول سرونٹس (ترمیمی) بل 2022ء منظور کیا جو سرکاری ملازمین کی پنشن اور گریجویٹی سے متعلق ہے‘ بنیادی طور پر ”خیبرپختونخوا سول سرونٹ ایکٹ 1973ء“ کی دفعہ 19 میں ترمیم کی گئی ہے جو ریٹائرمنٹ پر سرکاری ملازم کو ملنے والی پنشن گریجویٹی کا حق دیتی ہے اور اِس آئینی شق کو نئی شق سے تبدیل کر دیا گیا ہے جس میں مستقبل کے سرکاری ملازمین صرف ’شراکتی پنشن فنڈ‘ سے مستفید ہو سکیں گے۔
 ذہن نشین رہے کہ خیبرپختونخوا سول سرونٹس ترمیمی بل 2022ء کی دیگر شقیں بدستور برقرار ہیں جس میں سرکاری ملازمین کی حیثیت‘ ملازمتی خدمات یا عہدے کی مدت وغیرہ حسب سابق لاگو رہیں گے ماسوائے پنشن اور گریجویٹی کے‘ جس کیلئے پروویڈنٹ فنڈ قائم کیا جائے گا۔ پاکستان کے سخت معاشی حالات میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے لئے تیزی سے بڑھتا ہوا ”پنشن بل“ خاصا پریشان کن رہا ہے اور صورتحال اِس حد تک خراب ہو چکی ہے کہ قرض لیکر پینشن اور گریجویٹی ادا کرنا پڑتی ہے جسے فیصلہ ساز ”سنگین مسئلہ“ قرار دیتے ہیں اور سرکاری خزانے پر اِس مستقل اور بڑھتے ہوئے بوجھ کو کم کرنے کی خواہشات کا اظہار کئی مرتبہ کر چکے ہیں لیکن عجیب صورتحال یہ ہے کہ صرف پنشن ہی نہیں بلکہ حکومت کے لئے پنشن اور گردشی قرض دونوں سے نمٹنا آسان نہیں۔ 
اِن دونوں اخراجات کی ادائیگی کہاں سے اور کیسے ہو‘ یہ کھلا چیلنج ہے۔ وفاقی اور صوبائی پنشن واجبات پہلے ہی مالی طور پر ناقابل برداشت ہوتے جا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر ملک کی مستحکم وفاقی اور صوبائی پنشن کی ذمہ داریاں رواں مالی سال (دوہزاراکیس بائیس) کیلئے ایک کھرب روپے تک پہنچ چکی ہیں جو گزشتہ مالی سال کے دوران حاصل شدہ کل محصولات (ٹیکسیز) کے ایک چوتھائی کے برابر ہے۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 470 ارب روپے ہر سال وفاقی ملازمین کو پنشن کی صورت ادا کی جاتی ہیں اور وفاقی حکومت کیلئے پنشن کا یہ حجم اِس قدر ہے کہ کئی ملازمین کی پنشن بڑھتے بڑھتے اُن کی تنخواہوں سے زیادہ ہو چکی ہے! آبادی کے لحاظ سے ملک کے بڑے صوبے پنجاب کو جاری مالی سال کے دوران پنشن کی ادائیگیوں کیلئے ڈھائی سو ارب روپے یعنی گزشتہ سال کی ترقی پر خرچ ہونے والے اخراجات سے صرف پندرہ ارب روپے کم مختص کرنے پڑ رہے ہیں۔ 
سال 2011ء سے پنجاب میں پنشن کے بجٹ کی ادائیگی ہر سال قریب 25فیصد کے تناسب سے بڑھ رہی ہے اور دیگر صوبوں کی کہانی بھی اِس زیادہ مختلف نہیں ہے۔ اگر پینشن گریجویٹی کی ادائیگی کا موجودہ نظام جاری رکھا جاتا ہے تو اِن اخراجات کو کیسے پورا کیا جائے گا‘ صوبائی اسمبلی کو فراہم کردہ اعدادوشمار کے مطابق ”سال 2003-04ء میں صوبائی خزانے سے 872 ملین روپے پنشن ادا کی جاتی تھی جو سال 2017-18ء تک بڑھ کر 56ہزار ملین روپے سے تجاوز کر چکی ہے اور اِس میں پینشن وصول کرنے والوں کی تعداد و پنشن میں سالانہ اضافے کی وجہ سے مسلسل اضافہ ہو رہا ہے! 
قبائلی علاقوں کے ضم ہونے سے قبل خیبرپختونخوا کے کل سرکاری ملازمین کی تعداد 4 لاکھ 1 ہزار 707 تھی جبکہ 28 اضلاع میں پنشن وصول کرنے والے سرکاری ملازمین کی تعداد ’1 لاکھ 19 ہزار 379‘ تھی اور سرکاری ملازمین و پنشن ملازمین کی تعداد میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے جسے دیکھتے ہوئے اندیشے کا اظہار کیا جا رہا ہے حالیہ چند برسوں میں حکومت کی پنشن ادائیگیوں میں متعدد عوامل نے تیزی سے اضافہ کیا ہے جیسا کہ سرکاری شعبے کا بڑھتا ہوا حجم۔ ملازمت کیلئے سرکاری اداروں پر بڑھتا ہوا انحصار۔ متوقع زندگی (عمر) میں اضافہ۔ ایک ایسا عوامی پنشن کا نظام جس میں ریٹائرہونے والوں کے بچوں‘ پوتے پوتیوں کو بھی پنشن کی ادائیگی جاری رہتی ہے اور افراط زر (مہنگائی) کے اثرات کم کرنے کے لئے پنشن کی مالیت میں ہرسال اضافہ۔
 ”پنشن اصلاحات“ ایک عرصے سے زیرغور ہیں لیکن انہیں عوامی سطح تو کیا قانون ساز ایوانوں میں بھی خاطرخواہ جامعیت سے زیربحث نہیں لایا گیا کہ ہر قومی و صوبائی اسمبلی کے حلقے سے تعلق رکھنے والا رکن پنشن گریجویٹی کے مسئلے کے حل کے لئے تجاویز دے سکے اور یوں پنشن گریجویٹی ختم کرنے کا الزام صرف برسراقتدار جماعت کے کندھوں پر نہ آتا بلکہ اِس فیصلے میں ایوان میں موجود سبھی جماعتیں شریک ہوتیں اور اِس سے پیدا ہونے والے اتفاق رائے سے بھی کسی کو اختلاف کی گنجائش نہ رہتی۔  درحقیقت پنشن اصلاحات گزشتہ بیس برس سے جاری ہیں اور ہر دور حکومت میں اِن میں کچھ نہ کچھ (معمولی) ردوبدل ضرور کیا جاتا ہے تاہم یہ تبدیلی غیرمعمولی ہے کہ پنشن واجبات کی ادائیگی میں اضافے کو روک دیا جائے۔
 موجودہ پنشن بل کم کر دیا جائے اور ایک ایسا نیا نظام تشکیل دیا جائے جس سے پینشن صرف بنیادی ضروریات یا اخراجات ہی کیلئے کافی ہو اور کچھ صورتوں میں اِسے ختم بھی کر دیا جائے۔ اِس سلسلے میں مختلف ممالک پنشن سسٹم کا مطالعہ کرنے کے بعد ”شراکت دار پنشن سکیم“ متعارف کروائی گئی ہے۔ اگرچہ حکومتی اقدام وقت کا تقاضا ہو گا تاہم ضروری ہے کہ اس سلسلے میں پنشنروں کی نمائندہ تنظیموں سے بھی مشاورت کی جاتی تاکہ اٹھائے گئے اقدام کے زیادہ نتیجہ خیز ہونے اور مفید اثرات سامنے آنے کے امکانات میں اضافہ ہو گا۔