یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن نے گھی و تیل کے نئے نرخوں کا اطلاق ”یکم جون“ سے کر دیا اور اِس سلسلے میں جاری ہونے والے ایک اعلامیے (بتاریخ اکتیس مئی دوہزاربائیس) کے مطابق ”گھی اور کھانا پکانے کے (خوردنی) تیل کے نرخ بالترتیب 555 روپے فی کلوگرام اور 605روپے فی لیٹر مقرر کئے گئے ہیں۔“ مارکیٹ کی نسبت یوٹیلٹی سٹورز پر اشیائے خوردونوش اور اجناس کی قیمتیں نسبتاً کم ہوتی ہیں اور یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ تھوک و پرچون کے ڈیلرز یوٹیلٹی سٹورز کے نرخنامے سے اپنا نرخ طے کرتے ہیں‘ جو ہمیشہ یوٹیلٹی سٹورز سے زیادہ ہوتا ہے تاہم یوٹیلٹی سٹورز پر اجناس و اشیا کی وافر دستیابی نہیں ہوتی جبکہ خریداری سے متعلق صارفین کا جدید رجحان یہی ہے کہ وہ مہینے بھر کی خریداری ایک ہی چھت تلے یعنی ایک ہی مقام سے اور باسہولت کرنا چاہتے ہیں۔
ماضی میں کسی ایک چیز کے نرخ جاننے کی کوشش اور جستجو صارفین کی اکثریت میں دیکھی نہیں جاتی اور یہی وجہ ہے کہ بازار ہو یا منڈی‘ یوٹیلٹی سٹور ہو یا ڈیپارٹمنٹل سٹور مقررہ قیمتوں میں تکرار سے ردوبدل (بارگین) ممکن نہیں رہی۔ ذہن نشین رہے کہ یوٹیلٹی سٹور پر گھی و تیل کے نئے نرخ کا مطلب پرچون (خوردہ) مارکیٹ میں بھی قیمتوں پر اثرانداز ہوتے ہیں! دوسری اہم بات یہ ہے کہ فی الوقت گھی و تیل کے نرخ مارکیٹ میں کم ہیں لیکن ”پاکستان وناسپتی مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے پہلے ہی اشارہ دے چکی ہے کہ ”(آئندہ چند روز میں) گھی اور کوکنگ آئل کے خوردہ نرخ یوٹیلٹی سٹورز کی سطح پر آ جائیں گے۔“ ایسوسی ایشن کی طرف سے گھی اور کوکنگ آئل کی قیمتوں میں کمی کی یہ تجویز بھی سامنے آئی ہے کہ ملائیشیا سے پام آئل کی درآمد پر عائد 2فیصد اضافی ”کسٹم ڈیوٹی“ ختم کی جائے تاکہ ملائیشیا کے درآمد ہونے والے پام آئل کی زیادہ لاگت کو پورا کیا جاسکے جو انڈونیشیا سے درآمد ہونے والے پام آئل کے مقابلے پندرہ سے بیس فیصد مہنگا ہے۔
پاکستان کی 87 فیصد پام آئل درآمدات انڈونیشیا جبکہ باقی ملائیشیا سے ہوتی ہیں۔ گھی اور تیل کی قیمتوں کا معاملہ اِس لحاظ سے تکنیکی پہلو رکھتا ہے کہ اِسے بنانے کے بنیادی اجزأ درآمد کئے جاتے ہیں‘ جن کی قیمت (خرید اور درآمدی لاگت) پاکستانی روپے کی قدر کے ساتھ کم اور زیادہ ہوتی رہتی ہے اور دوسرا پہلو یہ ہے کہ درآمد کنندہ اور خام مال سے گھی و خوردنی تیل بنانے والے اگرچہ ایک ہی ہیں لیکن انہوں نے اپنی شرح منافع زیادہ کرنے کے لئے الگ الگ ناموں سے کاروبار بھی بڑھا رکھے ہیں اور ایسا صرف اِسی ایک شعبے میں نہیں ہو رہا بلکہ دیگر برآمد کنندگان بھی اِسی طرح زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کے لئے متحد ہوتے ہیں اور اِس گٹھ جوڑ سے معرض وجود میں آنے والے ’گروہ (کارٹیل)‘ کی وجہ سے صارفین کے حقوق کا تحفظ نہیں ہو پاتا۔
پاکستان تیلدار اجناس کیلئے درآمدات (بیرون ملک سے خریداری) پر انحصار کرتا ہے اور جب تک درآمدات پر انحصار رہے گا‘ اُس وقت تک گھی و خوردنی تیل کی قیمتیں نہ تو مستحکم ہو سکتی ہیں اور نہ ہی عام آدمی کی قوت خرید کے مطابق اِنہیں کم رکھا جا سکتا ہے۔ اِس مسئلے کا حل ”زیتون اور دیگر تیلدار اجناس کی پیداوار میں اضافہ ہے“ جس کے لئے پاکستان میں بہترین (موزوں) آب و ہوا اور زرخیز مٹی دستیاب ہے لیکن افسوس کہ زراعت (زرعی شعبے کی ترقی) ہماری قومی ترجیحات میں سرفہرست نہیں۔ سال 2014ء میں وفاقی حکومت نے خصوصی شجرکاری مہم (بلین ٹری سونامی) کا آغاز کیا جس کے لئے ”10 ارب درخت“ لگانے کا ہدف مقرر تھا اور اِسی حکمت عملی سے ملک میں ”زیتون کا خاموش انقلاب“ ہوا‘ جس سے ممکن ہوا کہ پاکستان ’بین الاقوامی زیتون کونسل‘ کا 19واں رکن بنا اور پاکستان میں سالانہ قریب پندرہ سو ٹن زیتون کا تیل اور آٹھ سو تیس ٹن ٹیبل زیتون پیدا ہونے لگا۔
حکومت نے زراعت پر موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات جیسا کہ زمین کے کٹاؤ‘ خشک سالی اور صحرا سازی سے نمٹنے اور کسانوں کو نئے مواقعوں اور اجناس سے روشناس کرانے کی مہم شروع کی جو کامیاب ثابت ہوئی اور ضرورت اُسے توسیع دینے کی ہے۔ پاکستان خوردنی تیل درآمد کرنے والا کا دنیا کا تیسرا بڑا درآمد کنندہ ہے۔ سال 2020ء میں پاکستان نے 2 ارب ڈالر سے زائد مالیت کا ’پام آئل‘ درآمد کیا۔ خیبرپختونخوا کے جنوبی اضلاع‘ مردان سے سوات تک کی پٹی زیتون کی کاشت کیلئے موزوں تصور ہوتی ہے اور اِن علاقوں میں تجرباتی کاشت شروع بھی کی گئی جسے بڑا دھچکا 18ویں آئینی ترمیم سے لگا جب زراعت کو صوبائی معاملہ (پروانشیل سبجیکٹ) بنا دیا گیا اور زیتون کی کاشت میں تجربات سے بیرون ملک سے مہارت حاصل کرنے والے تحقیق کاروں کو بیک جنبش قلم ملازمتوں سے فارغ یا اُن کی خدمات دیگر محکموں کے سپرد کر دی گئیں! ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے اُن غلطیوں کی اصلاح کرنے کی ضرورت ہے۔
تیلدار اجناس کی پیداوار میں اضافے سے پاکستان کو پام آئل کی درآمدات پر انحصار کم کرنے میں مدد ملے گی۔ پام آئل سے بنے گھی و تیل کے مقابلے زیتون کا تیل استعمال کرنے سے صحت مند رہنے میں بھی مدد ملتی ہے۔ ذہن نشین رہے کہ بین الاقوامی زیتون کونسل (آئی او سی) کے اٹھارہ ارکان میں زیادہ تر یورپی اور مشرق وسطیٰ کے ممالک ہیں جو بحیرہئ روم کے علاقے میں واقع ہیں۔ پاکستان کو انیسویں رکن کے طور پر شامل کیا گیا ہے۔ عالمی سطح پر زیتون کی پیداوار میں آئی او سی کے اراکین کا حصہ 98فیصد سے زیادہ ہے۔ پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ زیتون کی پیداوار و معیار پر منفی اثرات کم کرنے کے لئے ’عالمی تعاون تنظیم‘ کا حصہ تو بن چکا ہے لیکن اِس سے خاطرخواہ فائدہ نہیں اُٹھا رہا۔ اِسی طرح چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے میں بھی توجہ تیلدار اور زیتون کی کاشتکاری پر مرکوز نہیں۔ پاکستان میں ایک کروڑ (دس ملین) ایکڑز رقبے پر زیتون کی کاشت ہو چکی ہے جو رقبے کے لحاظ سے سپین سے زیادہ لیکن پاکستان میں زیتون اور زیتون کی پیداوار اور اِس کا معیار سپین سے کم ہے‘ جس میں اضافے کی ضرورت ہے تاکہ پام آئل کی درآمد پر خرچ ہونے والے سالانہ 2 ارب ڈالر بچائے جا سکیں۔