حسن ظن اور خوش فہمی میں اعتدال قائم رکھتے ہوئے عام آدمی (ہم عوام) کو اِس حقیقت کا ادراک کرنا ہوگا کہ جب ہم قومی ترقی اور ترقیاتی ترجیحات کا جائزہ لیتے ہیں تو اِس میں انتہائی غریب‘ غریب اور متوسط آمدنی والے طبقات کا حصہ برائے نام دکھائی دیتا ہے جیسا کہ پبلک ٹرانسپورٹ کا ملک گیر نظام نجی شعبے کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ ریلوے کو وقت کے ساتھ ترقی نہیں دی گئی اور نہ ہی اِسے مال برداری و مسافروں کے لئے جدید و محفوظ بنانے میں سرمایہ کاری کی گئی۔ یہی صورتحال اجناس کی ترسیل و فروخت میں بھی دکھائی دیتی ہے جہاں نجی شعبے کی اجارہ داری ہے۔ بجلی کی پیداوار سے درجہ بہ درجہ تعلیم و صحت کے نظام اور درآمدات تک کاروباری طبقات ہر شعبے پر حاوی دکھائی دیتے ہیں جو اپنے مفادات کے لئے متحد لیکن عوام کو سیاسی اختلافات کی بھٹی میں جھونک دیا گیا ہے۔ آج تک ایک بھی ایسا عوامی اتحاد سامنے نہیں آیا جس میں مختلف النظریات سیاسی جماعتوں کی بجائے عوام نے انتخابی نتیجہ اپنے حق میں کرنے پر اتفاق کیا ہو۔ آخر کیا وجہ ہے کہ عوام تو تقسیم لیکن ان کے نام پر سیاست کرنے والوں کی پالیسیوں میں یکسانیت پائی جاتی ہے؟گزشتہ پانچ حکومتوں کے ادوار اِس حقیقت کا عکاس (گواہ) ہیں کہ عام آدمی کی زندگی بہتری کی بجائے زوال پذیر ہے۔ مذکورہ عرصے میں بنیادی ضروریات زندگی کی لاگت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور اگرچہ اِس اضافے (مہنگائی) کی شرح میں کمی بیشی رہی ہے لیکن دال ساگ پر منحصر غریب کی معیشت بھی اب دال ساگ کی گنجائش بھی خطرے سے دوچار ہے! ایک مرتبہ پھر عام انتخابات کا مطالبہ کیا جا رہا ہے جس کی تاریخ کا اعلان ہونا باقی ہے جبکہ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اجناس بشمول ادویات کی مصنوعی قلت دیکھنے میں آ رہی ہے۔ ایک ایسی صورتحال میں جبکہ آئینی مدت کے تحت حکومت کا عرصہ بمشکل ڈیڑھ سال ہو سکتا ہے،
ایسے میں مہنگائی کا علاج کیسے ہوگا جس کے نتیجے میں عوام کے معمولات ِزندگی متاثر ہوتے ہیں۔انتخابات سے قبل ”فلاحی پیکجز“ کا اعلان جمہوری ممالک میں معمول کی بات ہوتا ہے۔ پانچ سالہ مدت میں چار سال ڈٹ کر اُن طبقات سے بلواسطہ اور بلاواسطہ ٹیکس وصول کیا جاتا ہے‘ جن کی مالی سکت اِس ٹیکس کی ادائیگی کا بوجھ بمشکل اُٹھاتی ہے اور اِسے اپنی دیگر ضروریات کم کر کے ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے چونکہ پاکستان کی معیشت قرضوں پر انحصار کرتی ہے یہی وجہ ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کی حکومت ہو اِس بات سے زیادہ فرق نہیں پڑتا اور حکومت آمدن و اخراجات کے میزانئے (بجٹ) میں فرق (خسارہ) کم کرنے کے لئے محصولات (ٹیکسوں) کی شرح میں وقتاً فوقتاً اضافہ کرتی رہتی ہے۔ یادش بخیر جب ملک میں گندم کا بحران تھا تو وزیراعظم شوکت عزیز حکومت (28 اگست 2004ء سے 15 نومبر 2007ء) نے گندم برآمد کرنے کی اجازت دے دی تھی جس کے بعد بھی گندم کی قلت بڑھتی گئی۔لب لباب یہ ہے کہ ایک عام آدمی کو حکومت سے جس ”معقول معاشی کارکردگی“ کی توقع ہے وہ کسی بھی دور حکومت میں پوری نہیں ہوئی! سال 2008ء میں اقتدار سنبھالنے والی پیپلزپارٹی کو زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کا سامنا تھا اور ایسی صورت میں خام تیل کی قیمتیں 120ڈالر فی بیرل سے بھی بلند ترین سطح تک جا پہنچیں اگست 2018ء میں تحریک انصاف برسراقتدار آئی تو پہلا کام ’ٹیکس ایمنسٹی‘ اور دوسرا کام ’ٹیکسوں میں دی گئی رعایت (سبسڈی)‘ ختم کرتے ہوئے ضمنی بجٹ کا اعلان کیا گیا جس میں تنخواہ دار طبقے کے لئے انکم ٹیکس کی شرح میں اضافہ شامل تھا۔ اقتصادی انتظام اور معیشت کو دوبارہ پٹری پر لانے کیلئے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے قرض لیا گیا جس کے بعد معیشت سنبھل نہیں پا رہی اور ہر چھ ماہ میں تین ارب ڈالر قرض درکار ہوتا ہے‘موجودہ حکومت بھرپور کوشش کر رہی ہیں کہ معیشت کو بحال کرکے عام آدمی کی مشکلات میں کمی لا سکیں اور اس حوالے سے منصوبہ بندی بھی ہو رہی ہے جس سے یہ امید بڑھ گئی ہے کہ عوام کو ریلیف دینے کے حوالے سے حکومتی اقدامات کے نتائج جلد سامنے آنا شروع ہو جائینگے اس مشکل میں سیاسی جماعتوں کو مکمل ہم آہنگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔