ٹھہری ہوئی ہواؤں میں جاد و بکھیرئیے 

کبھی بہار کے موسم کی پزیرائی بہت ہوا کرتی تھی خیر بہا ر کی کیا تب تو ہر موسم کا سواگت دل و جان سے کیا جاتا تھا،ہر موسم کے اپنے کھیل اور پکوان ہوا کرتے تھے، بارش ساون بھادوں کی ہو تو باغوں میں جھولے پڑتے تھے،سکھی سہیلیاں جھولتی تھیں اور لڑکے بالے استاد برکت علی خان کی جادوئی آواز میں گایا ہوا چراغ حسن حسرت کا کلام گاتے تھے
 باغوں میں پڑے جھولے
 تم بھول گئے ہم کو
 ہم تم کو نہیں بھولے
، اور بارش جب پھاگن کی ہو تو ہم یار بیلی مل جل کر حجروں میں حلوہ بنانے پہنچ جاتے تھے، موسم گرما میں دوست یار حسب توفیق کہیں بیٹھ کر دیسی مشین کے گرد برف اور نمک کی تہیں جما کر اور مشین کو باری باری زور زور سے ہلا کر آئس کریم بناتے تھے‘ہمارے حجرے کے بالکل سامنے ایک وضع دار اور بلا کے خوش لباس بزرگ خان بہادر محمد امین کابنگلہ ہو تا جہاں ہم آئس کریم بناتے اور نئے سر ایجاد کرتے تھے،البتہ جب کبھی پشاور سے بہت پر گو شاعر اور ناول نگار دوست عزیز خالد رؤف گرمی کی چھٹیاں گزارنے اکوڑہ خٹک آتے تو پھر کسی اور کا چراغ نہ جل پاتا اور وہ یاروں کی اس ٹولی کی سماعتوں کو سریلا کر جاتے تھے،
 گلوں میں رنگ بھرے باد ِ نو بہار چلے
 چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کا روبا ر چلے
بہار کے موسم میں دیر دیر تک دریا کنارے کی ٹھنڈی ریت پر یا دریا میں اترتی مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھے رہتے یا پھرکھیتوں کھلیانوں میں دور تک نکل جاتے،بس یہی ہماری تفریح ہوتی،ریڈیو حجرے میں تو تھا گھر میں نہیں تھا، ذرا بڑے ہوئے تو ٹرانسسٹر کا دور آ گیاتھا مگر مجھے وہ بھی کہاں میسر تھا، مگر تب تک ناول پڑھنے کا چسکا پڑ چکا تھا۔ ایک دن کتابوں کے پاس ایک ریڈیو نظر آیا یہ سفید رنگ کا ٹرانسسٹر ”ٹیلی فنکن“ تھا، فورا والدہ مرحومہ کو بتایا معلوم ہوا ان کا ایک دوست ریاض میر پور سے ان کے لئے تحفہ لایا ہے، کچھ دن تو یوں پڑا رہا پھر ایک دن بھائی بیٹری لے آئے، منت سماجت کے بعد رات کے وقت سننے کی اجازت ملی، تب آل انڈیا ریڈیو سے شب پونے دس بجے فرمائشی فلمی گانوں کا پروگرام ”تعمیل ارشاد“ آتا تھا اور وہی فیورٹ بن گیا تھا‘ ایک رات جب تعمیل ارشاد میں ابھی کچھ وقت باقی تھا، تو یونہی سرفنگ بلکہ ٹیوننگ کرتے ہوئے ریڈیو پاکستان پشاور پر رک گیا“ بہت ہی میٹھی اور نرم آواز میں اناؤنسمنٹ ہو رہی تھی۔”سامعین کرام آئیے اب چلتے ہیں ریڈیو پاکستان پشاور کے سبزہ زار جہاں ”جشن بہاراں“کے سلسلے میں ایک محفل موسیقی کا اہتمام کیا گیا ہے۔“ جانے اس اعلان میں کیا کشش تھی شاید ”سبزہ زار“ کے صوتی اثر نے دل کو چھو لیا تھا،اور پھر میں نے وہ سارا پروگرام سنا،موسیقی تو خوب تھی مگر مجھے سارے شو میں انتظار رہتا کہ کب کمپئیر یہ کہے گا ”یہ پروگرام آپ ریڈیو پاکستان پشاور کے سبزہ زار سے براہ ِ راست سماعت فرما رہے ہیں، اس رات میں نے تعمیل ارشاد نہیں سنا مگر اس کا کوئی قلق نہ تھا۔ تب موسم فصل گل تھا اوران دنوں جیٹھ کا مہینہ اپنے آخری عشرہ کا آغاز کر چکا ہے، دن کے پہلے حصے میں العطش کا سماں ہوتا ہے مگر تین پہر دن گزرنے کے بعد قدرے آسودگی کا احساس ہوتا ہے لیکن جون توجون ہی ہے جون کا تو نام سنتے ہی گرما کی شدّت اندر اترتی محسوس ہوتی ہے۔ اکبر الہ آبادی نے کہا ہے کہ
 پڑ جائیں میرے جسم پہ لاکھ آبلہ اکبر
 پڑھ کر جو کوئی پھونک دے اپریل مئی جون
اور اسی جون کی دوسری صبح ریڈیو پاکستان پشاور کی پہلی خاتون سٹیشن ڈائریکٹر سیدہ عفت جبار کا فون آیا کہ ’وطن عزیز کی 75 ویں سالگرہ یعنی ڈائمنڈ جوبلی کی آمد آمد ہے اور آج شام ”آزادی میلہ“ کے عنوان سے ایک تقریب میں آپ کو شرکت کی دعوت دینا ہے،، میں نے فون سنتے سنتے اپنے لیپ ٹاپ کے ’بار‘ پر نظر ڈالی جہاں درجہ حرات کی بجائے سرخ رنگ میں ’Hot ’لکھا ہوا تھا چونکہ میں نے جب ریڈیو پاکستان پشاور سے اپنی آواز ہواؤں کے سپرد کی تھی تو جن زعما کے ساتھ کام کیا تھا ان میں ایک اہم نام سید عبدالجبار کا بھی تھا، اپنے زمانے کا پاپولر پروگرام ”پچپن منٹ“ میں نے کئی سال لکھا اس پروگرام کے سکرپٹ لکھنے کے لئے جس دوست پروڈیوسر نے مجھے چنا تھا وہ پشتو اردو کے افسانہ نگار دوست سردار علی تھے،تاہم پھر پروڈیوسر بدلتے گئے اور جب یہ ”پروگرام بند کیا گیا“ تو تب میرے پروڈیوسر دوست مہربان محبی مشتاق شباب تھے، جو شاعر ادیب ہی نہیں ایک بہت اچھے براڈکاسٹر بھی تھے، مجھے اس پروگرام کا سکرپٹ لکھنا تھا جسے اپنے وقت کے عمدہ ریڈیو آرٹسٹ اپنی آوازیں دیتے تھے، جن دنوں میرے پروڈیوسر سید عبد الجبار تھے ایک دن میں ریڈیو پہنچا تو وہ قدرے پریشان تھے، معلوم ہوا کہ ایک آرٹسٹ (مختار احمد) تو پہنچ گئے تھے مگر خاتون آرٹسٹ شاکرہ صدیقی ابھی تک نہیں پہنچی تھیں، یہ شو لائیو تھا پروڈیسر کی پریشانی فطری تھی، مختار احمد نے کہا کہ کسی مرد آرٹسٹ کو بلا لیں تو عبد الجبار نے کہا سکرپٹ خاتون کے لئے لکھا ہوا ہے اب اتنی دیر ہے نہیں کہ وہ ٹھیک سے پڑھ پائے گا، میں نے کہا سر جی چھوڑیں میں خود کر لیتا ہوں ساتھ ساتھ گانوں کے دوران شو کا موڈ بھی چینج کرتا جاؤں گا، عجب اعتبار و بے اعتباری کے درمیاں انہوں نے حامی بھری مختار احمد ہمیشہ لو پرو فائل میں رہتے ہیں،فروس جمال،حبیب مہتاب عارف زیبائی، اور ودود منظرسمیت بہت عمدہ آوازوں کے بیچ مختار احمد نے اپنی بھرپور پہچان بنائی تھی، سو اس دن پچپن منٹ میں نے مختار احمد کے ساتھ مل کر پیش کیا، اور پروگرام کے اختتام پر سید عبدالجبار نے چائے پلائی جو اس بات کا ثبوت تھا کہ شو ان کو پسند آیا، اور پھر پچپن منٹ لکھنے کے ساتھ ساتھ میرا نام پیش کرنے والوں میں بھی شامل ہو گیا تھا۔ سید عفت جبار میرے اس شفیق پروڈیوسر کی بیٹی ہے اور وہ جانتی ہے کہ میں لاسٹ منٹ پر بھی کال کروں گی تو یہ انکار نہیں کریں گے،ایک تو مجھے ان کے اس مان کا پاس رکھنا تھا دوسرا انہوں نے یہ کہہ دیا کہ یہ شو ہم ”ریڈیو پاکستان پشاور کے سبزہ زار میں کر رہے ہیں“ اور سبزہ زار کے لفظ سے جو میرا رومینس جڑا ہو ہوا تھا اس نے مجھے فورا اس زمانے میں ٹرانسپورٹ کر دیا جب میں نے پہلی بار تعمیل ارشاد پروگرام کی بجائے ”ریڈیو پاکستان کے سبزہ زار سے براہ راست نشر ہونے والی جشن بہاراں کے لئے ترتیب دی گئی موسیقی سنی تھی“ 
آج بھی اداس لمحوں میں ریڈیو سے پروین شاکر کی زبان میں بات ہو تی رہتی ہے۔۔
 دھیمے سروں میں کوئی مدھر گیت چھیڑئیے 
 ٹھہری ہوئی ہواؤں میں جاد و بکھیرئیے