ہندوانتہاپسندوں کاانتقام 

اگر مسلمانوں کی بات کی جائے تو ان کی حالت ہرجگہ دگرگوں دکھائی دیتی ہے قیادت اوراتحاد کے فقدان کے باعث دنیا میں ان کے لیے اپناوجودبرقرار رکھنا بھی مشکل بنتاجارہاہے‘ ہر محاذ پر مصائب اور مایوسیوں کی تاریکیاں بڑھتی جا رہی ہیں‘ ہمارے پڑوس بھارت میں اس وقت مسلمانوں کو جن حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اس کی بدولت دوقومی نظریہ کی بنیاد مستحکم ہوتی جارہی ہے ہندو انتہاپسندوں نے جو دہشتگردی شروع کی ہوئی ہے اس نے قیام پاکستان کے جواز کوبھی مزید مضبوط بنیاد فراہم کردی ہے۔ بھارت اس وقت اندرونی محاذ پر گوناگوں مشکلات سے دوچارہے اور مودی سرکار نہیں چاہتی کہ افراط زر‘بے روزگاری، معیشت اور قومی سلامتی جیسے جلتے ایشوز پر اس کی ناکامی پر عوام میں ناراضگی پھیلے اس لئے عوام کی اجتماعی توجہ بھٹکانے کی خاطر مختلف تنازعوں کو تاریخ کے بوسیدہ صفحات سے نکال کر ٹیلی ویڑن اسکرینوں پر ٹھونسا جارہا ہے۔ مغل جو حال تک برصغیر کی شان و شوکت کی علامت سمجھے جاتے تھے آج معتوب قرار دیئے جارہے ہیں۔ پہلے صرف برٹش سامراج کو غلامی کا زمانہ سمجھا جاتا تھا اب عہد مغلیہ کو بھی غلامی کا دور مانا جارہا ہے۔ مودی نے بارہ سو سال کی غلامی سے نجات پانے کی بات یوں ہی نہیں کہی تھی۔ بی جے پی اور اس کی حواری تنظیموں کے اس اینٹی مغل مشن میں بھارت کا مودی میڈیا بڑھ کر حصہ لے رہا ہے ابھی حال ہی میں بنارس کی گیان والی مسجد پرپچھلے ایک ماہ میں میڈیا خصوصاً ٹیلی وژن چینلز نے جو کردار ادا کیا ہے اس سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ دو چار کو چھوڑ کر بھارتی میڈیا اب ہندو انتہاپسندمیڈ یا ہوگیا ہے۔ ”مغل“ آج قابل نفریں لفظ بنا دیا گیا ہے اور پورے مغلیہ دور میں اورنگزیب کو ہندوتوا کے علمبرداروں نے سب سے بڑے ولن کے طور پر چن لیا ہے۔ کبھی اورنگ زیب کے مقبرہ کو بند کیا جارہا ہے اور کبھی اورنگ آباد شہر کا نام بدلنے کی مہم چلائی جارہی ہے۔ خود مودی اپنی تقریروں میں اورنگ زیب کو نشانہ بناتے رہے ہیں۔ دسمبر میں بنارس میں ”اورنگ زیب کے مظالم اور دہشت“ کی تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ اس نے تلوار کے زور پر تہذیب کو بدلنا چاہا اور مذہبی جنونیت کے ذریعہ کلچر کو کچلنے کی کوشش کی تھی۔ ابھی پچھلے ماہ سکھ گرو گوبند سنگھ کے چار سو سالہ یوم پیدائش کے موقع پر مودی نے دعویٰ کیا کہ حالانکہ اورنگ زیب نے بہت سارے سر قلم کردیئے لیکن وہ پھر بھی ہمارے عقیدے کو ہلا نہیں سکا۔ اورنگ زیب کو رخصت ہوئے تین سو سال گزر چکے ہیں۔ اکیسویں صدی کے بھارت میں تاریخ کے صدیوں پرانے کرداروں کا نام یوں ہی نہیں اچھالا جارہا ہے؟ مبصرین کااس حوالہ سے کہنا ہے کہ ہندو قوم پرستوں کا خیال ہے کہ چونکہ مسلمانوں نے سینکڑوں سال تک ہندوؤں پر ظلم ڈھائے تھے اس لئے ماضی کے انتقام کے طور پر اب وہ ظلم سہنے کے مستحق ہیں۔ ان کے مطابق ہندوؤں کو یہ پیغام دیاجارہا ہے کہ صدیوں قبل کی گئی اورنگ زیب کی مبینہ زیادتیوں کی وجہ سے آج بھارت کے مسلمانوں سے نفرت کرنا اور انہیں تشدد کا نشانہ بنانا جائز ہے۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ فرقہ پرستی کا بازار گرم کرنے کی خاطرتاریخ کے قبرستان سے تنازعات کے گڑے مردے اکھاڑنے کے لئے قانون اور عدالتوں کو استعمال کیا جارہا ہے حالانکہ بھارت میں اس طرح کی مذموم کوششوں کے پیش نظر ہی ۱۹۹۱ء میں عبادت گاہوں کے تحفظ کا قانون بنایا گیا تھا


 جس کے تحت بابری مسجد کے علاوہ بقیہ تمام پرانی عباد ت گاہوں کی پندرہ اگست 1947 کی حیثیت کو برقرار رکھنے کاآئینی وعدہ کیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ نے بابری مسجد کیس کا فیصلہ سناتے وقت بھی خصوصی طور پر اس قانون کی اہمیت کا اعادہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”اب ملک کی تمام عباد ت گاہوں کواس قانون کے تحت تحفظ حاصل ہوگا۔ اس ایکٹ کے تحت تقسیم کے وقت جو عبادت گاہ جس حالت میں تھی اور جس فرقہ کی تھی اس کی وہی حالت برقرار رہے گی اور وہ اسی فرقے کی ملکیت رہے گی۔“ مشکل یہ ہے کہ اس قانون کی صریحاً خلاف ورزی کرتے ہوئے بھارت کی نچلی عدالتیں کبھی گیان والی مسجد تو کبھی شاہی عید گاہ پر شر انگیز مقدمات دائر کرنے کی نہ صرف کھلی چھوٹ دے رہی ہیں بلکہ مسجد کی مذہبی حیثیت متعین کرنے کے لئے ویڈیو گرافی سروے کے احکامات بھی جاری کررہی ہیں۔بابری مسجد کھو دینے کے بعد تمام مسلمانوں کو یہ بات سمجھ میں آجانی چاہئے تھی کہ کسی قدیم عبادت گاہ کی مذہبی حیثیت پر سوال اٹھاکر اسے تبدیل کرنے کا اصرار بی جے پی اور اس کی حواری تنظیموں کی سوچی سمجھی حکمت عملی کا حصہ ہے اگردیکھاجائے تو مغلوں سے بی جے پی ہمیشہ سے فیضیاب ہوتی رہی ہے1984میں دو لوک سبھا سیٹیں جیتنے والی بی جے پی مغل سلطنت کے بانی بابر کے نام سے منسوب مسجد کے خلاف تحریک چلا کر 1996میں اقتدار تک پہنچ گئی تھی۔ اب اورنگ زیب سے منسوب بنارس اور متھرا کی عبادت گاہوں کے خلاف محاذ آرائی کے پیچھے بی جے پی کا مقصد2024 میں انتخاب جیتنا ہی نہیں بلکہ بھارت کو باضابطہ طور پر انتہاپسند ہندوریاست میں تبدیل کردینا ہے۔تنازعہ مسجد،مندرکا ہویا تاریخی یادگاروں کا، اس کے پیچھے سیاست کارفرما ہوتی ہے جسے ہندوانتہاپسند تاریخی اغلاط کی تصحیح کا خوبصورت نام دے کر اودھم مچائے ہوئے ہیں۔ مقصد، مسلم حکمرانوں کو بدنام کرنا اور مسلمانوں کو نیچا دکھانا ہے۔ اور چونکہ تمام سرکاری اورآئینی ادارے بھارتی انتہاپسند حکومت کی جی حضوری میں لگے ہوئے ہیں اس لئے انصاف کی توقع عبث ہوگی بھارت میں آج تمام ادارے ہندوانتہاپسندی کی رو میں بہہ چلے ہیں اور ا نصاف کے نام پر مسلمانوں کے حقوق کی پامالی میں مصروف ہیں نومبر 2019میں چالیس سالہ پرانے بابری مسجدکیس میں یہی ہوا۔ سپریم کورٹ کی پانچ نفری بنچ نے مسلم فریق کے تمام دلائل کو تسلیم کیا لیکن عقیدے کی بنیاد پر فیصلہ ہندوؤں کے حق میں کیا اور مسلمانوں کی اشک شوئی کی خاطرایک نئی مسجد کی تعمیر کے لئے یوپی حکومت کو پانچ ایکڑ زمین مہیا کرنے کا حکم دیاجس سے پھرہندوانتہاپسندوں کے حوصلے بلند ہوگئے اور اب آئے دن کسی نہ کسی مسجد یا تاریخی عمارت کو نشانہ بنایاجارہا ہے۔ مسجد،مندر تنازع کی ابتدا میں دعوے بابری مسجد، گیان واپی مسجد اور متھراکی شاہی عیدگاہ پرتھے جس میں ہرگزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا گیا۔ یہ تعداد پہلے تین سے تیس ہوئی،پھر تیس سے تین ہزار اور اب وی ایچ پی کے مطابق چالیس ہزار ہوگئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ تاریخ سے چھیڑ چھاڑ اورتاریخی غلطیوں کے سدھار کا سلسلہ کب تک جاری رہے گا؟ تاج محل اور قطب مینار کے بعد اجمیر شریف کی د رگاہ بھی زد پر آگئی ہے اگر حالت یہی رہی تو مسلمانوں کے سامنے دوہی راستے رہ جائیں گے یا تو وہ خود اندلس کے مسلمانوں کی طرح مکمل طورپرنابود ہونے کے لیے تیاررہیں یا پھر بھارت میں سے ایک اورپاکستان کے ظہورکے امکانات کور دنہیں کیاجاسکتا بھارتی انتہاپسندوں کاجذبہ انتقام خود مستقبل میں ان کے لیے تباہ کن ثابت ہوگا۔