روس‘ یوکرائن جنگ کے 100 دن مکمل ہو گئے ہیں اور اِس تنازعے سمیت وسط ایشیائی امور پر قوم پرست جماعتوں کی گہری نظر ہے۔ ”مزدور کسان پارٹی“ کے رہنما کامل بنگش کہتے ہیں کہ ”روس یوکرائن تنازعہ نیا نہیں اور اِسے تاریخ کے سیاق و سباق اور ن خاص حالات کے تناظر میں دیکھا جانا چاہئے جن کی وجہ سے جنگ کے سوا کوئی دوسرا حل ممکن نہیں رہا تھاا ور امریکہ کی پشت پناہی سے یورپی ممالک روس کے گرد معاشی و اقتصادی اور دفاعی گھیرا تنگ کر رہے تھے۔“ کامل بنگش روس سے تعلیم یافتہ ہیں۔ روسی زبان روانی سے بولتے ہیں اور سیاست و صحافت کے اسرار و رموز پر بھی گہری نگاہ رکھتے ہیں۔ آبائی طور پر کوہاٹ سے تعلق رکھنے والے مرحوم و مغفور افضل (خان) بنگش کا گھرانہ دہائیوں سے پشاور میں آباد ہے ’کوہاٹی ہندکو‘ کے مٹھاس بھرے خاص لب و لہجے کے ساتھ اِن کے ہاں ’پشتو‘ زبان بھی منفرد تلفظ کے ساتھ بولی جاتی ہے جسے سننے کا اپنا ہی لطف ہے۔ سالار خادم حسین ملک مرحوم کی ’رسم قل (دو جون دوہزاربائیس)‘ کے موقع پر ہوئی ملاقات میں ’کامل بنگش‘ نے ’روس یوکرائن جنگ‘ کے کئی ایسے پہلوؤں کا بھی احاطہ کیا جو دانستہ یا غیردانستہ طور پر تجزیہ کاری کرتے ہوئے بالعموم بیان نہیں کئے جاتے اور ایسا کرنے کی ایک وجہ روس کے خلاف عوامی سطح پر نفرت پھیلانا بھی ہے جبکہ بقول کامل بنگش ”روسی نہایت ہی سادہ طبیعت اور قناعت رکھنے والے ہوتے ہیں بالکل اسی طرح جیسا کہ پاکستان کے دیہات کے لوگ‘ جو اپنی بودوباش میں سادگی و ملنساری رکھتے ہیں۔“
بقول کامل ”روس یوکرائن سرحدی تنازعہ درحقیقت معاشی‘ دفاعی‘ لسانی‘ ثقافتی اور چند تاریخی پہلو بھی رکھتا ہے۔ یہ تنازعہ سال 2014ء میں شروع ہوا جسے دنیا کے کسی بھی ملک اور کسی بھی عالمی ادارے نے خاطرخواہ توجہ نہیں دی کیونکہ آج بھی سرمایہ دارانہ (سامراجی) دنیا یہی سمجھ رہی ہے کہ معاشی و دفاعی لحاظ سے کمزور روس اِس کے مفاد میں ہے۔ یہی نکتہ سرد جنگ کا باعث بھی رہا جس میں اگرچہ روس کو نقصان ہوا لیکن اِس کے نقصانات سے وہ ممالک بھی محفوظ نہیں رہ سکے جنہوں نے روس کی مخالفت میں افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور سینکڑوں ہزاروں بے گناہ پختونوں کا خون کیا جبکہ اتنی ہی تعداد میں آج افغان بھوک و افلاس کا شکار ہیں جن پر حکمرانی کرنے والوں سے لیکر درپردہ فیصلہ سازوں تک کچھ بھی افغانستان کے حق میں ”مشکل کُشا“ ثابت نہیں ہو رہا! بہرحال ’سال دوہزارچودہ‘ سے جاری تنازعے میں روس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا اور 24 فروری 2022ء کے روز روسی افواج یوکرائن میں داخل ہوئیں جس کے بعد وہ قدم قدم آگے بڑھ رہی ہیں تاکہ وہ اپنے ہی ملک کے ایک حصے اور اپنی ہی عوام کا نقصان کا جانی و مالی نقصان نہ کریں لیکن دنیا کو ’روس کی یہ احتیاطی تدبیر یا حکمت عملی‘ غلط رنگ کے ساتھ پیش کی جا رہی ہے کہ جیسے یوکرائن میں ”روس کو سخت مزاحمت کی صورت شکست کا سامنا ہے!“ ایسا ہرگز ہرگز نہیں ہے۔ روس کی دفاعی طاقت بالخصوص تین سطحی (three Lier) روسی دفاعی نظام اِس قدر جدید‘ چاک و چوبند (مستعد) و کامیاب رہا ہے کہ اب تک باوجود کوشش و دراندازی کے یورپی و امریکی فضائیہ روسی افواج کا زیادہ کچھ نہیں بگاڑ پائی ہیں! بہرحال روس یوکرائن تنازعے کے خاموش تماشائی جنگ کی مذمت اور جنگ بندی کے مطالبات کر رہے ہیں لیکن کوئی ایک بھی ملک (فریق) روس کی جانب سے سات سال تک معاملات طے (یعنی صبر) کرنے کی کوششوں کا ذکر نہیں کر رہا اور اِس سلسلے میں صدر پیوٹن کے اِس بیان کے پہلوؤں کو دیکھنا چاہئے جس میں نہوں نے کہا کہ ”یوکرائن پر فوج کشی بہت پہلے کر لینی چاہئے تھی۔“ روس جس انتہا تک پہنچا ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یوکرائن پر یورپی ممالک اور امریکہ کی ’نظرکرم‘ کی وجہ سے روس کی سلامتی خطرے میں پڑ گئی تھی۔ امریکہ ہمیشہ ہی سے روس کو کمزور کرنے کے لئے کسی نہ کسی ملک کا کندھا استعمال کرتا رہا ہے جیسا کہ افغانستان اور پاکستان‘اِس مرتبہ امریکہ نے یوکرائن کے استعمال کی حکمت عملی تیار کی جس کے بعد سے یوکرائن میں روسی زبان بولنا جرم ہوگیا۔“ روسی نژاد لوگوں کے لئے عرصہئ حیات بالکل سی طرح تنگ کر دیا گیا تھا جس طرح بھارت کے زیرتسلط کشمیر میں مسلمانوں کی حالت ِزار ہے۔