A humanitarian crisis
افغانستان میں اگست دوہزار اکیس سے انسانی بحران جاری ہے جو غیرملکی افواج کے اچانک انخلأ کے بعد نئی افغان حکومت کو عالمی برادری کے تسلیم نہ کرنے سے پیدا ہوا ہے۔ عجیب و غریب منطق ہے کہ جب افغانستان کے عوام کی نمائندہ حکومت نہیں تھی تو پوری دنیا اُسے تسلیم کرتی تھی لیکن جب افغانستان کے عوام کی اکثریت طالبان کے ساتھ ہے تو دنیا کو طالبان اور طالبان طرزحکمرانی قابل قبول نہیں رہی۔ اندیشہ تھا کہ افغانستان میں ایک اور خانہ جنگی کا دور شروع ہوگا لیکن ایسا نہیں ہوا اُور طالبان کو مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا کیونکہ موجودہ افغانستان میں کسی غیرملکی کا عمل دخل اور مفاد نہیں اور یہی وجہ ہے کہ اِس ملک کو چلانے میں دشواری پیش آ رہی ہے۔ ذہن نشین رہے کہ افغانستان کی معیشت 80فیصد بیرونی امداد پر انحصار کرتی ہے۔ موجودہ افغان بحران کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے اور تجزیہ کار توقع کر رہے ہیں کہ بیس سالہ جنگ میں ہونے والی تمام افغان ہلاکتوں کے مقابلے میں اس بحران کی وجہ سے زیادہ افغان ہلاک ہوں گے۔ افغان گھرانوں کی اکثریت نے گزشتہ آٹھ ماہ کے دوران روزی روٹی کھو دی ہے۔ افغانستان کے بحران کی جڑیں ملک کے بینکاری شعبے اور بین الاقوامی انسانی اور ترقیاتی فنڈز پر سخت بیرونی پابندیوں تک پھیلی ہوئی ہیں۔ طالبان کی غیر ملکی اثاثوں تک رسائی کم کرنے کی براہ راست کوشش میں امریکی حکومت نے افغانستان کے مرکزی بینک کے ساتھ لین دین پر انتہائی سخت پابندیاں عائد کیں۔ گزشتہ سال طالبان کے قبضے کے بعد سے امریکی حکومت نے افغانستان کے مرکزی بینک کو تسلیم کرنے کے عمل کو معطل کر دیا‘ جس نے عملی طور پر ملکی معیشت کو دنیا سے کاٹ دیا‘ اساتذہ‘ صحت کارکنوں اور دیگر عام کارکنوں سمیت لاکھوں سرکاری عہدیداروں کے ضروری منصوبوں اور تنخواہوں کی ادائیگی میں شدید رکاوٹ پیدا ہوگئی۔ امریکہ نے افغانستان کے مرکزی بینک کے ساڑھے نو ارب ڈالر سے زائد کے اثاثے منجمد کر رکھے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکہ نے بین الاقوامی فنڈنگ میں رکاوٹ ڈالنے کے علاوہ وہاں کے ترقیاتی منصوبوں کو دی جانے والی زیادہ تر مالی امداد بھی روک دی ہے۔ امریکی فوجیوں کی روانگی سے قبل ہی افغانستان میں خشک سالی‘ سیاسی عدم استحکام اور طویل عرصے سے جاری تنازعہ کی وجہ سے غذائی عدم تحفظ اور غربت پھیل چکی تھی لیکن طالبان کے قبضے کے بعد کے مہینوں میں یہ بحران بہت تیزی سے بڑھا جس پر عالمی ماہرین بھی حیران ہیں۔ اربوں ڈالر کی کم ہوتی غیر ملکی ترقیاتی امداد نے افغانستان میں تباہی مچا رکھی ہے۔ افغانوں کی اکثریت کو انتہائی بھوک کا سامنا ہے اور پانچ سال سے کم عمر کے دس لاکھ سے زائد بچوں کے فاقہ کشی سے مرنے کا شدید خطرہ لاحق ہے۔ بین الاقوامی بچاؤ کمیٹی کے مطابق افغانستان ان ممالک کی سالانہ ہنگامی واچ لسٹ میں سرفہرست ہے اور اس میں انسانی بحران آنے والے مہینوں میں تیزی سے مزید خراب ہونے کا امکان ہے۔ اگرچہ افغانستان میں امن و امان کی عمومی صورتحال بہتر ہے لیکن انسانی بحران کا بگڑتی ہوئی صورتحال آنے والے دنوں میں بڑی انسانی تباہی کے لئے خطرے کی گھنٹی بجا رہی ہے۔ طالبان حکومت افغان عوام کو کھانا کھلانے کی پوزیشن میں بالکل نہیں ہے۔ افغانستان کے ہر قصبے‘ ہر گاؤں اور ہر گلی میں بھوک بالکل واضح ہے۔ ملک کے مختلف حصوں میں روٹی کی دکانوں کے باہر لمبی قطاریں اور کھانے پینے کی اشیا پر فسادات روز کا معمول بن چکے ہیں۔ بے روزگاری بھی انتہا تک پہنچ چکی ہے۔ سوشل میڈیا ایسی ویڈیوز سے بھرا پڑا ہے جس میں لوگوں کو اپنے بچوں کو 175ڈالر میں فروخت کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ افغانوں کی بڑی تعداد پہلی بار بھوک کے اس بحران کا سامنا کر رہی ہے! رواں سال کے اوائل میں امریکہ نے افغانوں کے لئے تیس کروڑ (308 ملین) ڈالر کی انسانی امداد کا وعدہ کیا تھا اگرچہ افغانستان کی ضرورت اِس امداد سے کئی گنا بڑی ہے اور صرف جاری موجودہ غذائی بحران سے نجات کے لئے افغانستان کو سات ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔ افغانستان میں حالات کب معمول پر آئیں گے اور عوام کو کب ریلیف ملے گا جبکہ امداد کی وقتی فراہمی سے اِس ملک کے مسائل حل ہونے کی زیادہ توقع بھی نہیں ہے۔ افغانستان غذائی عدم تحفظ سے دوچار ہے جہاں غذا کی شدید قلت میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ کرنسی (نقد رقم) کی بھی شدید قلت اور بنیادی اشیا کی آسمان سے چھوتی قیمتوں کے نتیجے میں افغانستان میں سماجی و اقتصادی بحران پیدا ہو گیا ہے۔ صورتحال یقینی طور پر ہاتھ سے نکل رہی ہے اور پڑوسی ممالک پر بھی اِس بحران کے اثرات ظاہر ہو رہے ہیں۔ عالمی برادری کو اس بڑے انسانی سانحے کو روکنے کے لئے حکمت عملی وضع کرنے میں کردار ادا کرنا چاہئے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر عمران خالد۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)