اصلاحاتی جتن

خیبرپختونخوا اسمبلی کا جاری اجلاس ’10 جون‘ تک ملتوی ہونے سے قبل چند روزہ کاروائی میں یکے بعد دیگرے منظور کئے جانے والے جملہ قوانین اور ترامیم بالخصوص اہم ہیں تاہم اِن کے بارے میں عوام الناس کی سمجھ بوجھ اور معلومات کی سطح بھی بلند کرنے کی ضرورت ہے۔ جب عام آدمی (ہم عوام) کو اِس بات کا علم ہی نہیں ہوگا کہ کون کون سے نئے قوانین تخلیق ہوئے ہیں اور کن قوانین میں ترامیم کر دی گئی ہیں تو کس طرح ہم عوام سے اِس بات کی توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ قوانین کا پاس کریں گے! لاعلمی خواندگی نہیں ہوتی۔ جہالت علم کی متضاد ہے اور اِس کا خاتمہ ازخود نہیں ہوتا۔ قوانین یا ترامیم کی منظوری ایوان بالا یا ایوان زریں سے ہو یا پھر صوبائی اور ضلعی حکومتوں کی سوچ بچار کا نتیجہ ہو‘ حتمی ہدف یہی ہوتا ہے کہ معاشرے سے امتیازات کا خاتمہ ہو اور ہر حکمراں جماعت عہد کرتی ہے کہ وہ قانون کی بلاامتیاز حکمرانی ممکن بنائے گی  لیکن کیا اِس حلف (عہد) کو پورا کیا جاتا ہے؟ 
اگر قوانین سازی کے بعد اِس کے یکساں اطلاق کی ذمہ داری اور عوام میں قوانین سے متعلق شعور میں اضافہ کرنے کی ذمہ داری سیاسی جماعتیں اپنے سر لیں جو کہ اِن کے قیام کا بنیادی مقصد بھی ہے تو قوانین کا غلط و امتیازی سلوک روکا یا پھر بڑی حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔ یہ پہلو بھی ذہن نشین رہے کہ کوئی بھی قانون اپنی ساخت میں امتیازی نہیں ہوتا بلکہ اِس پر عمل درآمد کے مراحل میں جانبداری برتی جاتی ہے۔ قوانین ہر کس و ناکس کا احاطہ کرتے ہیں‘ عوامی مطالبہ ہے کہ قانون سازی کی سطح پر کم سے کم ایک مرتبہ رائے عامہ بذریعہ سول سوسائٹی جان لی جائے تو اس میں بھلا ہی بھلا ہے یعنی قوانین سازی جس طرح وسیع پیمانے پر سوچ بچار کا نتیجہ ہوگی اُسی قدر اِن کا غلط استعمال بھی نہیں ہو سکے گا لیکن خاطرخواہ مشاورت نہ ہونے کی وجہ سے اول تا آخر قوانین و قواعد مشکوک اور زیربحث رہتے ہیں۔
حسب ضرورت قوانین اور اِن میں ترامیم کے ذریعے سقم دور کرنے کی کوشش میں خیبرپختونخوا اسمبلی کو اعزاز حاصل ہوا ہے کہ اِس کے دونوں ادوار قانون سازی کے لحاظ سے غیرمعمولی رہے۔ تین جون کو ”خیبرپختونخوا یونیورسل ہیلتھ کوریج بل 2022ء“ کی منظوری دی گئی جو صوبائی سطح پر 74 لاکھ خاندانوں کیلئے صحت کے بیمہ (تحفظ) سے متعلق ہے اور اِس قانون سازی سے تحریک انصاف کے بے مثل و بے مثال فلاحی منصوبے ”صحت انصاف کارڈ“ کو قانونی تحفظ فراہم کر دیا گیا ہے جبکہ اِس قانون کے علاوہ 7 دیگر اہم قوانین بھی منظور کئے گئے ہیں جن میں مالیاتی ذمہ داری بل‘ ریونیو اتھارٹی بل‘ ہیلتھ کیئر فیسلٹی بل اُور لوکل گورنمنٹ بل منظور کئے گئے ہیں جبکہ اِن قوانین سے متعلق حزب اختلاف کی جانب سے پیش کردہ ترامیم و تجاویز کو بصد احترام واپس کیا گیا ہے۔
بنیادی بات یہ ہے کہ انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کبھی بھی مکمل نہیں ہوتے اور ہی یہ ہمیشہ لاگو رہتے ہیں جبکہ اِن میں وقت کے ساتھ ترامیم (نظرثانی) کی ضرورت رہتی ہے۔ قوانین کیا ہوتے ہیں؟ کیوں ہوتے ہیں؟ اِس بات کو سمجھنے کے لئے قانون کی ضد یعنی جرائم کو سمجھنا ہوگا۔ وقت کے ساتھ جرائم جس قدر پیچیدہ ہوتے چلے جائیں گے‘ قوانین کے ذریعے اُن کا احاطہ کرنے کی کوششیں بھی اُسی قدر دیکھنے میں آئیں گی اور یہی سبب قوانین کے جواز کا بھی ہے کہ معاشرے کی ہر اکائی‘ ایک دوسرے کے ہاتھ پاؤں اور زبان کے شر سے محفوظ رہے لیکن کیا قوانین جرائم میں کمی اور خاتمے کا باعث بن رہے ہیں بلکہ جرائم کی کوکھ سے نت نئے جرائم اور قوانین کی کوکھ سے نت نئے قوانین جنم لے رہے ہیں لیکن کوئی ایک بھی شکست ماننے کیلئے تیار نہیں جبکہ عام آدمی کی زندگی میں قوانین کے ذریعے سے بہتری لانے کی ہر کوشش کیا کامیابی سے ہمکنار ہو رہی ہے؟ اگر نہیں تو معاشرے کو مزید قوانین کی نہیں بلکہ اصلاح اور اصلاحات کی ضرورت ہے جس کی دم کرم (بدولت) سے جرائم کی روک تھام اِن کے رونما (پیش) ہونے سے قبل ہی ممکن بنائی جا سکتی ہے۔