دستیاب وسائل کا منصفانہ استعمال

خیبرپختونخوامیں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اپنا چوتھا بجٹ 13جون کو پیش کرنے جارہی ہے۔اسی روز صوبائی کابینہ یکم جولائی2022سے شروع ہونے والے نئے مالی سال کے نظر ثانی شدہ تخمینہ جات،سالانہ ترقیاتی پروگرام،مالیاتی بل اور پراونشل فنانس کمیشن کی سفارشات کی منظوری دے گی‘دریں اثناء صوبائی حکومت نے خیبرپختونخواکے سالانہ ترقیاتی فنڈز 22-2021 کی تفصیلات جاری کر دی ہیں،محکمہ خزانہ کی طرف سے جاری رپورٹ کے مطابق بندوبستی اضلاع کو جاری کئے گئے سالانہ ترقیاتی پروگرام کا 77فیصد حصہ خرچ کیاگیا ہے ٗ19 محکموں کے ترقیاتی منصوبوں کیلئے 165 ارب روپے مختص کئے گئے تھے محکمہ خزانہ ان میں سے 156 ارب روپے جاری کئے۔جاری کردہ فنڈز میں سے 30 مئی تک 120ارب روپے خرچ کئے گئے۔ ابتدائی وثانوی تعلیم کیلئے 10ارب 87کروڑ روپے مختص کئے گئے تھے جس میں سے اب تک 5 ارب 94کروڑ یعنی 59 فیصد بجٹ خرچ کیا جاسکا ہے۔شعبہ صحت کیلئے 16ارب 62کروڑ روپے مختص کئے گئے تھے جس میں سے 12ارب روپے خرچ کئے گئے جو مختص بجٹ کا 71فیصد بنتا ہے‘ان اعدادوشمار سے واضح ہوتا ہے کہ کسی بھی محکمے نے اپنے مختص سالانہ ترقیاتی بجٹ کا سو فیصد خرچ نہیں کیا۔
 مالی سال کابارھواں اور آخری مہینہ چل رہا ہے۔جس میں زیادہ سے زیادہ پانچ دس فیصد جاری کردہ فنڈ خرچ کرنا ممکن ہوگا۔ترقیاتی شعبے میں صوبائی حکومت کی کارکردگی اس لحاظ سے اطمینان بخش ہے کہ مختلف صوبائی محکموں نے اپنے مختص ترقیاتی بجٹ کا 80فیصد تک خرچ کیا ہے صرف پندرہ بیس فیصد بجٹ لیپس ہوجائے گا۔ ماضی میں بعض محکمے اپنے سالانہ ترقیاتی فنڈز کا بیس سے تیس فیصد بھی خرچ نہیں کرسکتے تھے اور آدھے سے زیادہ بجٹ مالی سال کے اختتام پر استعمال نہ ہونے کی وجہ سے لیپس ہوجاتا تھا۔ صوبائی حکومت اپنے بجٹ کا صرف 35سے 40فیصد اپنے وسائل سے پیدا کرتا ہے۔اور بجٹ کی ساٹھ سے پنسٹھ فیصد ضروریات قومی مالیاتی ایوارڈ سے ملنے والے حصے، بجلی کے خالص منافع، تمباکو سس،وفاقی حکومت کی گرانٹ، بینکوں سے قرضے اور بیرونی امداد سے پوری کی جاتی ہیں۔ اس لئے صوبائی محکموں کو اپنے مختص ترقیاتی فنڈز کے سو فیصد استعمال کا پابند بنانا چاہئے تاکہ ترقی کی رفتار تیز ہوسکے اورعوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی یقینی بنائی جاسکے۔
صوبائی حکومت نے گزشتہ تین سالوں سے تعلیم، صحت اور سیاحت کو اپنی ترجیحات میں سرفہرست رکھا ہے ان تین شعبوں میں کافی اصلاحات بھی ہوئی ہیں اگلے دو سالوں میں بھی یہ محکمے ترجیحاتی فہرست میں شامل ہوں گے۔حکومت معدنیات اور جنگلات کے شعبوں کو بھی اپنی ترجیحات میں شامل کرے تو اس کے حوصلہ افزاء نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ملک کے دیگر صوبوں کی نسبت خیبر پختونخوا میں جنگلات اور معدنی وسائل زیادہ ہیں مگر ان سے خاطر خواہ استفادہ نہیں کیا جا سکا دونوں شعبوں پر خصوصی توجہ مرکوز کرنے کی بدولت صوبے کے وسائل میں پندرہ سے بیس فیصد تک اضافہ ہوسکتا ہیاور دیہی علاقوں کے عوام کا معیار زندگی بہتر بنانے اور لوگوں کو روزگار کی فراہمی کے وسیع مواقع موجود ہیں۔ملک کی موجودہ معاشی صورتحال کا تقاضا ہے کہ محکموں کے اخراجات میں بھی خاطر خواہ کٹوتی کی جائے اور نئی گاڑیوں کی خریداری سمیت غیرضروری اخراجات سے ہر ممکن گریز کیاجائے تاکہ عوام کو زندگی کی بنیادی سہولیات فراہم کرنے کیلئے مزید وسائل دستیاب ہوسکیں۔