مہنگائی کی شرح کم کرنے کیلئے ہر خاص و عام چاہتا ہے کہ حکومت اپنے اخراجات کم کرے لیکن صرف حکومت اور سرکاری ادارے ہی نہیں بلکہ عام آدمی (ہم عوام) کو بھی ”کفایت شعاری (سادگی پر مبنی طرز زندگی)“ اختیار کرنا ہوگی۔ بچت کا کوئی ایک روپ نہیں‘ یہ بجلی کے استعمال سے لیکر نمود و نمائش (شو آف) کے جملہ پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہے۔ مثال کے طور پر ہم سب کا اتفاق ہے کہ پاکستان میں بجلی کی کمی ہے اور اِس بحران سے نمٹنے کے لئے ہر گھنٹے بعد برقی رو کی فراہمی معطل کی جا رہی ہے جس کی وجہ سے معمولات ِزندگی متاثر ہیں لیکن ایسے طبقات بھی ہیں جو حقیقت حال کو جاننے کے باوجود بھی درآمد شدہ ایندھن سے تیار ہونے والے بجلی کا حسب ضرورت (کم سے کم) استعمال نہیں کرتے۔ دوسری طرف سٹریٹ لائٹس اور قد آور تشہیری اعلانات (بل بورڈز) کو منور رکھنے کے لئے بجلی کا استعمال حسب سابق (حسب ِمعمول) جاری ہے۔ توانائی کے اِس بحران کو ”ہنگامی صورتحال (ایمرجنسی)“ کے طور پر دیکھا جانا چاہئے کہ اِس میں تمام سرکاری دفاتر میں ائرکنڈیشنز کے استعمال پر مکمل پابندی عائد کر دی جائے۔
سٹریٹ لائٹس بند رکھی جائیں۔ کاروباری مراکز بند کرنے کے لئے مغرب سے عشا کے درمیانی اوقات مقرر کئے جائیں اور نماز عشا (موسم گرما میں رات 9 بجے) سے پہلے عمومی کاروباری مراکز لازماً بند کروائے جائیں۔ چند ماہ کی اِس مشق کے بعد صارفین خودبخود دن یعنی روشنی کے اوقات میں خریداری کے عادی ہو جائیں گے۔ یہ طرز عمل مغربی ممالک اور امریکہ میں عام دیکھا جاتا ہے جہاں چند ضروری خدمات فراہم کرنے والوں کے علاوہ باقی تمام بازار سرشام بند ہو جاتے ہیں اور اِس کا ایک مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ تمام دن کاروبار کرنے والے عشایئے سے قبل اپنے اہل خانہ کے ساتھ کچھ وقت بسر کر سکیں تاکہ خاندانی و سماجی نظام مضبوط ہو۔پاکستان کے اپنے وسائل کی ترقی یعنی خودانحصاری اور غذائی خودکفالت کے بغیر قرضوں پر منحصر معیشت کی اصلاح ممکن نہیں ہے۔ قرض لینا آسان لیکن اِس پر سود اور اِس کی واپسی مشکل ہوتی ہے۔
وفاقی حکومت نے سرکاری اداروں کیلئے نئی گاڑیاں نہ خریدنے‘ سرکاری ملازمین (بشمول بیوروکریٹس) اور وزرأ کے لئے پٹرول کوٹہ میں کمی اور کابینہ اراکین و سرکاری عہدیداروں کے بجلی‘ گیس اور ٹیلی فون اخراجات میں کٹوتی جیسے ”کفایت شعاری اقدامات“ کا حکم دیا ہے۔ سندھ‘ پنجاب اور خیبر پختونخوا پہلے ہی اپنے وزرأ کے لئے پٹرول کی مد کٹوتی عائد کر چکے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ کفایت شعاری مہم عوام کے لئے راحت کا باعث بنے گی؟ اس کفایت شعاری کے نتائج تب ہی سامنے آسکتے ہیں جب ان کا دائرہ مزید وسیع کیا جائے۔ کیونکہ بعض شعبوں میں وسائل سے بے رحم استفادہ آج بھی جاری ہے۔ اگر سرکاری اداروں اور اعلیٰ و ادنیٰ عہدوں پر فائز سرکاری ملازمین کو دیئے جانے والی پٹرول کی مد میں کٹوتی نہ بھی کی جاتی اور صرف دفتری اوقات کے بعد سرکاری گاڑیوں کے استعمال پر 100فیصد پابندی عائد کر دی جاتی تو اِس سے زیادہ بچت ہو سکتی ہے۔
اِسی طرح دفتری اوقات ختم ہونے کے بعد کام کاج کے بہانے دفاتر کھلے رکھنے پر بھی پابندی عائد ہونی چاہئے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ بچت اور فضول خرچی دونوں کسی بھی قوم کے رویے اور شعور کا اظہار ہے۔ اگر کسی قو م میں اجتماعی طور پر ملکی وسائل کی قدر اور اس کی اہمیت کے حوالے سے احساس زندہ ہے تو وہ یقینا ان وسائل کی حفاظت کے ضمن میں اقدامات کے حوالے سے نہ صرف خود سوچتی ہے بلکہ اگر حکومت کی طرف سے ایسا کوئی منصوبہ سامنے آئے جس کا مقصد قومی وسائل کی بچت ہے تو اس مرحلے پر قوم کا ہر فرد اپنا حصہ ڈالنے کیلئے بے چین ہوتا ہے اور وہ یکجان ہوکر اس عمل کو کامیابی سے ہمکنار کرتے ہیں۔ تاہم یہ کوئی آسان کام نہیں، بلکہ عوام میں اس قسم کا شعور بیدار کرنا ایک وقت طلب اور محنت طلب کام ہے۔ اول تو حکمرانوں کو عوام کیلئے کفایت شعاری اور بچت کے حوالے سے نمونہ بننا ہوگا۔کفایت شعاری کا ایسا منصوبہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا جہاں اوپر سے نیچے تک اس پر بلا امتیاز عمل نہ ہو۔
پاکستان ”بدترین مالی (اور معاشی) بحران“ اور ”بدترین توانائی بحران“ سے گزر رہا ہے اور اِس صورتحال میں آئندہ انتخابات میں افراط زر (مہنگائی) کا معاملہ کلیدی کردار ادا کرے گا۔ بنیادی طور پر حکومت ایسے تمام تضادات ختم کرنا ہیں‘ جن کی موجودگی میں کفایت شعاری اور معاشی بحران جیسے اہداف حاصل کرنا ممکن نہیں اور اِن کی وجہ سے عوام کی اکثریت حکومت کے شانہ بشانہ مسائل و بحرانوں کے نمٹنے کے لئے بھی تیار و آمادہ نہیں ہے۔ حرف آخر: دنیا بھر میں کمپیوٹر سافٹ وئرز کمپنیاں مالی بحران سے گزر رہی ہے کیونکہ اِس شعبے میں سرکاری و نجی سرمایہ کاری میں غیرمعمولی کمی آئی ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) میں مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹلی جنس) اور ڈیٹا سائنس جیسے تصورات نے ’سافٹ وئر سازی (انجینئرنگ)‘ کو اسلحہ سازی یا دفاعی سازوسامان بنانے والے اداروں کی توجہ کا مرکز بنا رکھا ہے جن کے اپنے ’آئی ٹی مراکز‘ ہوتے ہیں جہاں رازداری کا خیال رکھا جاتا ہے۔
عالمی سطح پر معاشی مندی اور مہنگائی کی لہر نے کئی معروف کمپنیوں کو جنجھوڑ کر رکھ دیا ہے جن میں ایپل‘ مائیکروسافٹ‘ ایمازون اور گوگل شامل ہیں اور اِن سبھی کمپنیوں کے حصص (شیئرز) کی قدر میں کم ہوئی ہے۔ سرمایہ کاروں کا اعتماد اگر دنیا کی معروف ترین اور بڑی کمپنیوں پر نہیں رہا تو چھوٹے اداروں اور بالخصوص سافٹ وئر سازی کے کسی ایک حصے سے وابستہ افراد کس طرح اِس بحران سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ اِس صورتحال کا پاکستان کیلئے مطلب کیا ہے؟ بنا تمہید کہا جائے تو سافٹ وئر سازی اور سافٹ وئر سازوں کو مالی مشکلات کا سامنا کرنے کے لئے خود کو ذہنی طور پر تیار رکھنا چاہئے اور اِس بحرانی صورتحال‘ جو دنیا کے مختلف ممالک میں ظاہر ہو رہی ہے سے نکلنے کے لئے پاکستان کی سافٹ وئر صنعت بھی اگر ابھی سے منصوبہ بندی کر لے تو زیادہ بہتر رہے گا۔کیونکہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ مستقبل کے حوالے سے منصوبہ بندی کے معاملے میں ہم دوسری اقوام سے پیچھے رہ جاتے ہیں۔