تعلیم کہاں کھڑی ہے؟

پریشان
مملکت خداداد میں معاشی اونچ نیچ بلکہ عدم مساوات جس تیزی سے بڑھ رہی ہے بالکل اسی انداز اور رفتار سے طبقوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے  میرے اندازے  اور جانچ کے مطابق پاک سرزمین کے باسیوں کے کل ملا کر پانچ طبقے بنتے تھے، ان میں ایک طبقہ نمبر1 وہ تھا اور اب بھی ہے بیرون ملک بھی بہت کچھ رکھتے ہیں۔ ان میں اکثریت ان کی ہے جو منہ میں سونے کا چمچ لئے اس دنیا میں آئے ہوئے ہیں۔ یعنی بعض موروثی سیاستدان اسی طرح بعض بیورو کریٹس کچھ جاگیر دار اور غلامی کے دور کے مراعات یافتہ ایک فیصد لوگ یا طبقہ شامل ہے اور اس کے بعد دوسرے، تیسرے، چوتھے اور پانچویں طبقے کا نمبر آتا ہے۔ پانچواں طبقہ یعنی دہاڑی دار اور ہم جیسے قلم کے مزدور، خوانچہ فروش، رکشے والا، چوکیدار، نائب قاصد اور مالی وغیرہ، یہ لوگ رہائش تعلیم علاج اور آسائش جیسے حقوق اور بنیادی سہولیات سے ہمیشہ سے محروم چلے آئے ہیں۔ ان کاکام محض اتنا ہوتا ہے کہ ان میں سے ایک محدود تعداد یعنی پانچ سے دس یاز یادہ سے زیادہ بیس فی صد لوگ طبقہ نمبر ایک کو ووٹ دے کر انہیں اقتدار کے ایوانوں میں پہنچا کر ملک کے سیاہ و سفید کا مالک بنا دے اور بس۔ غرباء مساکین اور سو فیصد محروم ان لوگوں کی یونیورسٹیوں میں بھی کمی نہیں۔گزشتہ کچھ عرصہ سے یہ لوگ جن معاشی مسائل و مشکلات کا شکار تھے موجودہ معاشی بحران نے ان بیچاروں کو کہیں کا نہیں چھوڑا۔ بلکہ اب تو یہ لوگ چوتھے اور پانچویں نمبر پر بھی نہیں بلکہ چھٹے اور ساتویں درجے یا طبقے کے پاکستانی بن گئے ہیں۔ یہ لوگ گزشتہ کچھ عرصے سے سیخ پا ہیں کہ بر سر اقتدار طبقہ اپنے پروٹو کولی اور غیر ترقیاتی اخراجات، مراعات اور آسائشوں میں کمی کی بجائے تعلیمی بجٹ مسلسل کیوں گھٹا رہے ہیں۔ انہوں نے وفتاً فوقتاً اپنے احساسات‘جذبات اور احتجاج کا اظہار کر دیا ہے جبکہ صدا بہ صحرا  کا یہ سلسلہ بدستور جاری ہے جس میں انجینئرنگ یونیورسٹی کے کلاس تھری اور کلاس فور ملازمین قدرے زیادہ جذباتی ہو کر سامنے آئے ہیں اور دوٹوک انداز میں کہہ رہے ہیں کہ صوبے کی حکومت نے جامعات کے ان ملازمین کیلئے گزشتہ بجٹ میں جن الاؤنسز کا اعلان کیا تھا اس کی فراہمی میں مزید ٹال مٹول قابل برداشت نہیں ہوگی واقعہ یہ ہے کہ کلاس تھری اور فورکیلئے اعلان کردہ یہ حکومتی مراعات جسے الاؤنسز بھی کہتے ہیں تین قسم کے ہیں مگر شومئی قسمت کہ دوسرے بجٹ پہنچنے تک بھی ملازمین کو نہیں ملے ملازمین نمائندے اسے یونیورسٹی انتظامیہ کی ناکامی بھی قرار دے رہے ہیں مگر ضروری نہیں ہے کہ اس موقف سے ہر کوئی متفق ہو کیونکہ جب حکومت اپنے اعلانات پر عملدرآمد ضروری نہیں سمجھتی تو یونیورسٹی انتظامیہ بیچاری کیا کر سکتی ہے؟ اور پھر نئے دور کے جامعات ماڈل ایکٹ میں تو انتظامیہ کے پرکچھ اس قدر بے دردی سے کاٹ دیئے گئے ہیں کہ اب انتظامیہ کیلئے تعلیم اور ملازمین کے مسائل اور حقوق کیلئے آواز اٹھانا کسی بھی وائس چانسلر یا دوسرے تیسرے کے بس کی بات نہیں رہی اصل مسئلہ یہ ہے کہ تعلیم توصاحب اقتدار طبقے کی ترجیحات سے اتنی دور کھڑی ہے کہ بمشکل نظر آرہی ہے یہ تلخ حقیقت بلکہ المیہ کو ذہن میں رکھنا ہوگا کہ یہ باہر سے مشروط سودی قرضہ کے جو پیسے آرہے ہیں یہ تعلیم یا اس ملک کے غریب اور محروم عوام کی کسی دوسری بھلائی کیلئے نہیں ہوتے بلکہ حکومتی اخراجات یعنی پارلیمنٹ اور کابینہ وغیرہ کو چلانے کی نذر ہو جاتے ہیں انجینئرنگ یونیورسٹی کے ملازمین اس بات کو بھی نہ بھولیں کہ حکومت نے محض تین الاؤنسز کا اعلان نہیں کیا تھا بلکہ اس کے بعد پشاور یونیورسٹی کیمپس کی چاروں جامعات کیلئے دو ارب روپے گرانٹ کا جو اعلان بلکہ اعلانات کئے تھے اسی کا کیا بناء؟ کیا وہ گرانٹ یونیورسٹیوں کو مل گئی؟ حقیقت تو یہ ہے کہ اس ملک پر مسلط نظام میں تعلیم اور تعلیمی اداروں سے منسلک کم از کم غریب ملازمین تعلیمی اور معاشی ابتری کے مزید جھٹکوں کیلئے تیار رہیں مملکت خداداد کے غرباء و مساکین یہ پختہ عقیدہ رکھیں کہ جب تک تعلیم اور معیشت کے بارے میں قرآنی تعلیمات اور احکامات کی پیروی اورپاسداری نہیں ہوگی تب تک ہماری ابتری‘ بدحالی اورمحرومی میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔