توانائی کا بحران

وفاقی حکومت نے ملک بھر میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ فوری طور پر ساڑھے تین گھنٹے، سولہ جون کے بعد تین گھنٹے اور تیس جون سے روزانہ دو گھنٹے کرنے کا اعلان کیا ہے۔ حکومت کا موقف ہے کہ بجلی کا شارٹ فال چار ہزار میگاواٹ ہوگیا ہے حکومت طلب اور رسد میں فرق کو کم کرنے کے لئے ہنگامی بنیادوں پراقدامات کررہی ہے۔دوسری جانب پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی نے صارفین سے اپیل کی ہے کہ موجودہ شارٹ فال اور گرمی کی شدید لہر کے دوران بجلی کے استعمال میں اعتدال سے کام لیں تاکہ پورے صوبے کے صارفین کو بجلی کی فراہمی جاری رکھی جاسکے۔پاور جنریشن میں کمی کے باعث سسٹم اوورلوڈ ہوچکا ہے۔ اس وجہ سے شہری علاقوں میں روزانہ چار گھنٹے اور دیہی علاقوں میں چھ گھنٹے فورس لوڈ شیڈنگ کی جارہی ہے۔ گرمی کی شدید لہر کی وجہ سے بجلی کے نظام پر دباؤبڑھ گیا ہے‘پاور ٹرانسفارمر اور ڈسٹربیوشن ٹرانسفامرز بار بار اوور لوڈ ہونے کی وجہ سے ٹرپ ہورہے ہیں۔
ڈیموں میں پانی کی سطح کم ہونے کی وجہ سے ہائیڈل پاور جنریشن میں غیر معمولی کمی واقع ہوئی ہے۔ ایل این جی کا بروقت بندوبست نہ ہونے کی وجہ سے بیشتر تھرمل پاور پلانٹس بھی بند پڑے ہیں۔ملک میں بجلی کی پیدوار ساڑھے انیس ہزارمیگاواٹ جبکہ طلب ستائیس ہزار میگاواٹ ہے یوں ساڑھے سات ہزار میگاواٹ بجلی طلب کے مقابلے میں کم ہے‘ اگر بجلی کی پیداوار پچیس تیس ہزار میگاواٹ بھی ہوجائے تو ہماری ٹرانسمیشن لائنیں بیس ہزار میگاواٹ سے زیادہ بوجھ نہیں اٹھاسکتیں اس لئے پیداوار پوری ہونے کی صورت میں بھی لوڈ شیڈنگ ختم ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ بحرانی صورتحال میں عوامی سطح پر کفایت شعاری کے فقدان کی وجہ سے بھی مسائل بڑھتے جارہے ہیں۔
دوسری طرف پاور کمپنیاں بجلی چوری کرنے والوں پر ہاتھ ڈالنے کے بجائے وہاں بارہ سے سولہ گھنٹے لوڈ شیڈنگ کرتی ہیں جس کی وجہ سے باقاعدگی سے بل ادا کرنے والے صارفین بھی فورس لوڈ شیڈنگ کی بھٹی میں جل رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ سولہ یا بارہ گھنٹے سے دو تین گھنٹے تک لانا عملاً ممکن ہی نہیں ہے۔ گرمی کی شدت بڑھتی جارہی ہے۔ ائرکنڈیشنرز، روم کولرز، پنکھوں، فریج اور ڈیپ فریزرز کا استعمال کم ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔حکومت اور بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں اگر عوام کو ریلیف دینا چاہتی ہیں تو فوری طور پر ایسے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے جس سے بجلی کے نظام پر بوجھ کم ہو جائے‘اس سلسلے میں اگر متبادل انتظامات کی حوصلہ افزائی کی جائے تو بھی بجلی کے نظام پر بوجھ کم ہو سکتا ہے۔ حکومت چاہے تو شمسی توانائی کے سسٹم کو لگانے پر سبسڈی دے اور جس قدر زیادہ لوگ سولر سسٹم لگائیں گے اس قدر قومی گرڈ پر بوجھ کم ہوتا جائیگا۔ بجلی ہر شہری کی بنیادی ضرورت ہونے کے ساتھ ایک قومی امانت ہے اور کفایت کے ساتھ اس کا استعمال ہر شہری کا اخلاقی اور قومی فرض ہے۔