کسی بھی ملک کی ترقی میں ہائر ایجوکیشن اور اس سطح پر ہونے والی معیاری تحقیق ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے۔ تاہم بد قسمتی سے پاکستان میں اعلی تعلیم کے حوالے سے اہم ادارہ ہائر ایجوکیشن کمیشن فی الوقت فنڈز کی شدید کمی کا شکار ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کا بجٹ نئی تحقیق اور اعلی تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے میں کتنا معاون ثابت ہو رہا ہے۔ خبریں آرہی ہیں کہ امسال ہائر ایجوکیشن کمیشن کے بجٹ میں نصف تخفیف کر دی جائے گی۔ پچھلے برس ایچ ای سی کو65.25ملین بجٹ جاری کیا گیا تھا، جسے گھٹا کر 30 ملین کرنے کی خبریں گردش میں ہیں۔اگرچہ اس حوالے سے ابھی تک کوئی حتمی فیصلہ سامنے نہیں آیا اوروزیر اعظم سمیت متعلقہ اعلیٰ حکام نے اس کی تردید کی ہے اور واضح کیا ہے کہ نئی حکومت تمام طلبا وطالبات کیلئے لیپ ٹاپ سکیم کا اجرا کرنے والی ہے لہذا ایچ ای سی بجٹ میں پچھلے سال کی نسبت اضافہ متوقع ہے۔ اعلیٰ تعلیم کے شعبے سے وابستہ ماہرین کے مطابق پاکستانی جامعات میں گزشتہ دو دہائیوں میں دیگر شعبہ جات کے علاوہ جیالوجی اور ارتھ سائنسز میں قابل قدر تحقیق ہوئی ہے۔
ان دونوں سائنسی شعبہ جات کا ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے میں براہ راست تعلق ہے۔ پاکستان جنوبی ایشیا ء کے ان ممالک میں شامل ہے جو قدرتی آفات اور ماحولیاتی تبدیلیوں سے براہ راست متاثر ہیں۔ ان مسائل سے نمٹنے کیلئے ہمیں مزید کوالیفائیڈ سائنسدانوں اور محققین کی ضرورت ہے۔ساتھ ہی ان سائنسدانوں کی تربیت کرنے کیلئے جامعات میں جدید تکنیکی آلات جیسے ریموٹ سینسنگ، جیوگرافک انفارمیشن سسٹم، سٹیلائٹ امیجنگ وغیرہ کے ساتھ بین الاقوامی معیار کی لیبارٹریز کی ضرورت ہے، جو ایچ ای سی کو دئیے جانے والے موجودہ بجٹ میں ممکن نہیں ہے۔ ساتھ ہی ماہرین کی یہ بھی رائے ہے کہ ہماری جامعات میں بین الاقوامی معیار کی تحقیق کا عمل بہت سست ہے، جس کی ایک بڑی وجہ وسائل، سہولیات اور تحقیق کے لیے دئیے جانے والے فنڈز کی کمی ہے۔ نہ ہی اساتذہ کو ان کے کام اور ان تھک محنت کی مناسبت سے تنخواہ دی جاتی ہے۔ایک استاد جو خود مالی پریشانیوں میں الجھا ہوا ہو وہ کس طرح یکسوئی سے اپنی یا طلبا کی تحقیق کو وقت دے سکتا ہے،سائنسی تحقیق ایک انتہائی محنت طلب کام ہے جو مکمل ذہنی سکون مانگتا ہے جو ماہرین کی رائے کے مطابق ہماری جامعات میں اساتذہ اور محققین کو میسر نہیں ہے۔ ان ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہمارے ہاں جب کوئی انتہائی قابل سینئر پروفیسر ریٹائر ہوتا ہے تو ہماری جامعات اسے فاضل عضو سمجھ کر نکال پھینکتی ہیں۔
ترقی یافتہ ممالک میں ایسے اساتذہ کو فوری طور پر ایمیریٹس پروفیسرز کے طور پر ہائر کر لیا جاتا ہے۔ تاہم بد قسمتی سے ہمارے قابل اور تحقیق کے ماہر پروفیسر جب ریٹائر ہوتے ہیں تو اندرون ملک کی بجائے بیرون ملک سے انہیں کام کی پیشکش کی جاتی ہے۔ایچ ای سی اگر ایسے اساتذہ کو ہائر کر لے تو جامعات میں تحقیقی سسٹم ریچارج ہو سکتا ہے کیونکہ یہ سینئر اساتذہ زندگی کے دیگر جھمیلوں سے تقریبا آزاد ہوتے ہیں اور پوری یکسوئی سے طلبا کو تحقیق میں سپر وائز کر سکتے ہیں۔ مگر ظاہر ہے کہ اس عمل کیلئے ایچ ای سی کو مزید بجٹ کی ضرورت ہوگی جو موجودہ معاشی بحران میں ملنا مشکل ہے۔یہاں یہ سوال بھی اہم ہے کہ بجٹ میں کمی سے طلبا کتنا متاثر ہوں گے؟ تو حقائق بتاتے ہیں کہ کورونا وائرس وبا کے بعد دنیا بھر میں تعلیمی نظام متاثر ہوا ہے مگر پاکستان میں صورتحال کچھ زیادہ ہی ابتر محسوس ہوتی ہے۔ وبا ء کے دوران حکومتی عہدیداروں سے لے کر عام بندے نے بھی دیکھا کہ میڈیکل سائنس میں لوکل ریسرچ کتنی اہمیت کی حامل ہے۔
کورونا وائرس میوٹینٹ کے ساتھ منکی پوکس وائرس، لمپی سکن ڈیزز وغیرہ وائرل ہو گئی ہیں۔ لہٰذا مقامی جامعات اور میڈیکل ریسرچ اداروں میں تحقیقی عمل کو تیز تر کرنا وقت کی ضرورت ہے، جس کیلئے مزید سہولیات اور فنڈز کی ضرورت ہے، اگر بجٹ میں کمی ہوتی ہے تو بجٹ میں کمی سے جامعات کی فیسیں بڑھانا پڑیں گی جو والدین پر ایک اضافی بوجھ ہو گا۔ والدین معیار تعلیم میں گراوٹ سے پہلے ہی شدید تشویش کا شکار ہیں کیونکہ پاکستانی طلبا کیلئے بین لاقوامی تعلیمی اداروں میں سکالر شپ ملنا مشکل ہو گیا ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ ایچ ای سی صرف ہائر ایجوکیشن کو ریگولیٹ نہیں کرتا بلکہ اس کا مقصد ملک میں ہائر لیول پر تحقیق کو پروان چڑھانا اور اس کے معیار کو ریگولیٹ کرنا ہے جو معمولی ذمہ داری نہیں اور اس مقصد کے حصول کیلئے ایچ ای سی کے فنڈز میں خاطر خواہ اضافے کی ضرورت ہے۔