خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع میں گذشتہ دو ہفتوں کے دوران 400 سے زائد چھوٹے بڑے جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات ہوئے ہیں۔صوبے کے 25 مختلف اضلاع کے پہاڑی سلسلوں پر آتشزدگی سے اربوں کی مالیت کے قیمتی درخت جل کر خاکستر ہوگئے۔ آتشزدگی کے ان واقعات کی وجہ سے جنگلی حیات کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ جنگلات کے قریب آبادی تک آگ پھیلنے سے چار قیمتی انسانی جانیں ضائع ہوگئیں اور درجنوں افراد آگ میں جھلسنے اور امدادی کاروائیوں کے دوران زخمی ہوگئے۔سب سے زیادہ آگ لگنے کے واقعات ضلع ایبٹ آباد میں پیش آئے جن کی تعداد 148 ہے۔ بونیر 81، مانسہرہ میں 50 اور سوات میں آتشزدگی کے 34 واقعات پیش آئے ہنگو 17، لوئر دیر 11، شانگلہ 11, مہمند 15 اورہری پورمیں آگ لگنے کے 13 واقعات رونما ہوئے۔ پہاڑی سلسلوں پر پھیلے ہوئے جنگلات میں لگی آگ کے شعلے تیز ہواؤں کے باعث نہایت سرعت سے پھیلتے رہے جس سے امدادی کاروائیوں میں مشکلات پیش آئیں ریسکیو اہلکاروں، ضلعی انتظامیہ اور مقامی آبادی کے رضاکاروں نے آگ بجھانے میں اہم کردار ادا کیا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیاآتشزدگی کے اتنے سارے واقعات اتفاقی تھے یا ان میں تخریبی عنصر شامل تھا۔ صوبائی حکومت نے آتشزدگی کے واقعات کی تحقیقات کا بھی حکم دیا ہے۔ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت نے بلین ٹری سونامی منصوبے کے تحت ایک ارب سے زائد درخت لگا ئے ہیں۔حکومت کے شجرکاری منصوبے کو بین الاقوامی سطح پر بھی ماحول کے تحفظ کیلئے سنگ میل قرار دیاجارہا ہے ماحولیاتی آلودگی کے منفی اثرات سے ہمارا صوبہ سب سے زیادہ متاثر ہورہا ہے۔ اس سال اپریل سے ہی درجہ حرارت 40سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا ہے۔ پہاڑی علاقوں میں موسم کی صورتحال تبدیل ہونے اور بعض علاقوں میں مئی کے آخری ہفتے میں برفباری سے معمولات زندگی متاثر ہوئے ہیں ڈیموں میں پانی کی سطح ڈیڈ لیول تک پہنچ گئی ہے جس سے توانائی کا بحران پیدا ہوگیا ہے۔
پانی کی قلت سے ملک بھر میں زرعی پیداوار پر بھی منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔موسمی اثرات سے محفوظ رہنے اور قدرتی ماحول کو آلودگی سے بچانے شجرکاری ناگزیر ہے۔ جنگلوں میں آتشزدگی کے واقعات شجرکاری کی قومی مہم کو بری طرح متاثر کرتے ہیں۔ آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ملک کے مختلف علاقوں میں چند دنوں کے اندر آتشزدگی کے سینکڑوں واقعات ہوئے ہوں۔ یہ واقعہ بلوچستان کے علاقہ شیرانی سے شروع ہوا تھا۔ پھر ہزارہ سے ہوتا ہوا ملاکنڈ ڈویژن تک پھیل گیا۔ ہمارے ملک میں جنگلات قومی ضرورت سے کم ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومت کو جنگلوں میں آگ لگنے کے ان واقعات کی وسیع پیمانے پر تحقیقات کرنی چاہئے اگر اس میں تخریبی عنصر کارفرما ثابت ہوجائے تو مجرموں کو گرفتار کرکے عبرت ناک سزا دینی چاہئے۔
بلین ٹری منصوبے پر قوم کے اربوں روپے خرچ ہوئے ہیں اور اس منصوبے کا ہماری قوم کی زندگی اور مستقبل کے ساتھ براہ راست تعلق ہے۔ جو لوگ اس اہم قومی منصوبے کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں وہ قومی مجرم ہیں اور ان کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔یہ تو وہ خدشات ہیں جو ایسے حالات میں جنم لیتے ہیں، دوسری صورت میں اگر یہ ماحولیاتی تبدیلی کا نتیجہ ہے اور درجہ حرارت میں اضافے کے نتیجے میں یہ واقعات پیش آنے لگے ہیں جس طرح دنیا کے دیگر ممالک میں بھی پیش آتے ہیں تو پھر بھی اس حوالے سے تدابیر اختیار کی جاسکتی ہیں۔ آگ لگنے کی صورت میں اس پر جلد از جلد قابو پانا اور نقصان کو کم سے کم رکھنا ممکن ہے اگر اس کیلئے موثر منصوبہ بندی کی جائے اور تمام ممکنہ وسائل اور جدید آلات کو بروئے کار لایا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ آگ لگنے سے جنگلات کو ہونے والے نقصان کو کم سے کم سطح پر رکھا جائے۔جنگلات میں لگنے والی آگ پر قابو پانے کے حوالے سے مہارت کی کمی کا فوری حل نکالنا ہوگا تاکہ مستقبل میں اس طرح کے واقعات کی صورت میں نقصانات کو کم سے کم سطح پر رکھا جائے۔