اب تو خیر منظر نامہ بہت بدل گیا ہے اور شو بز کی دنیا بہت پھیل گئی ہے اس لئے اس کے کسی بھی شعبہ سے جڑنا معمول کی کاروائی سے زیادہ کچھ نہیں،پہلے پہل فلم تھی جس نے بڑی حد تک تھیئٹر کی بساط لپیٹ دی تھی،البتہ ریڈیو ایک مضبوط میڈیم تھا، جس سے وابستگی نئی نسل کا خواب ہوا کرتی تھی مگر اسکے لئے بہت کڑی شرائط تھیں آواز کا حوالہ بنیادی تھا مگر بعض اچھی آوازیں بھی آڈیشن میں رہ جاتیں کیونکہ آواز کے اتار چڑھاؤ پر جب تک پوری قدرت حاصل نہ ہو جاتی ریڈیو کے اکابرین کے لئے قابل قبول نہ ہوتیں،پھر ٹیلی ویژن آیا تو ریڈیو کا سنہرا دور بہت دیر تک مقابلہ میں کھڑا رہا کیونکہ ٹی وی کی نشریات محدود تھیں، اور شہروں کی حد تک ریڈیو کا حلقہ سمٹا مگر دیہات میں اس کی مقبولیت میں کمی نہیں آئی،انہی دنوں اکوڑہ خٹک میں ایک فلم کی شوٹنگ کے لئے کوئی ٹیم آئی،یہ سکول کا زمانہ تھا ہم دو چار لڑکے شوٹنگ دیکھنے دریائے کابل کی طرف گئے جو ہمارے محلے سے چند ہی گز پرے تھا، مگر جب پہنچے تو تب تک وہ کام ختم کر کے سامان پیک کر رہے تھے،بس اتنا معلوم ہوا کہ فلم کانام ”شاعر کا خواب“ ہے اور اس میں اور بہت سے فنکاروں کے ساتھ ہمارے ہی محلے کا ایک نوجوان بھی کام کر رہا تھا،ہر چند اس نوجوان کی فیملی بہت پہلے پشاور شفٹ ہو چکی تھی، مگر گرمیوں کی چھٹیوں میں یا کسی غمی خوشی کے دنوں میں وہ گاؤں آجاتے تھے۔اس کا چھوٹا بھائی ہماری عمر کا تھا اس سے تو میل ملاقات ہو جاتی تھی ایک تو ان کے اور ہمارے گھرکے درمیان کوئی اور گھر نہیں تھا اور دوسرے ان کی والدہ سے ہماری رشتہ داری تھی۔ اب جب بھی مجھے پتہ چلتا کہ پشاور سے ان کی فیملی آئی ہے میں اسے دیکھنے ان کے گھر یا بنگلہ چلا جاتا،ایک شام میں بنگلہ ہی میں تھا پشاور سے کچھ اور دوست بھی تھے اچانک یہ نوجوان بھی آ گیا جانے کس نے اس سے فرمائش کی اور اس نے جیب سے با جا (ماؤتھ آرگن) نکالا رومال سے صاف کیا اور پھر اس پر مہدی حسن کی فلم سزا کے لئے گائی ہوئی قتیل شفائی کی غزل چھیڑ دی ”جب بھی چاہیں اک نئی صورت بنا لیتے ہیں لوگ“ یہ پہلا موقع تھا کہ گیتوں کی بجائے ماوتھ آرگن پر کوئی غزل سنی تھی جو ظاہر ہے آسان کام نہ تھا۔ وہ لان میں کرسی پر بیٹھے اور ہم ان کے گرد نیم دائرہ کی شکل میں لان کی نرم گھاس پر بیٹھے تھے۔ گاؤں تو وہ بعد میں آتے رہے مگر پھر کبھی ایسا موقع نہ ملا، یہ بلا کے با صلاحیت نوجوان کرنل مبین قریشی کے بڑے بیٹے جہاں زیب سہیل تھے، کبھی کبھی ریڈیو سے ان کی یا پھر ان کے چھوٹے بھائی فرخ سیئر کا روڈ شو ”گھومتے خان
پھرتے خان“ سنتے تو بہت سرشار ہوجاتے کہ یہ وہ فنکار ہیں جنہیں ہم نے دیکھا ہے ان سے بات کی اور یہ ہمارے رشتہ دار بھی ہیں، مجھے معلوم نہیں کہ فلم ”شاعر کاخواب“ پھر مکمل ہوئی یا نہیں مگر جب میں نو شہرہ کالج گیا تو خوشگوار حیرت ہوئی اس فلم کے رائٹر،ہیرو اور ڈائریکٹرعبدالودود منظر میرے اردو کے پروفیسر تھے، ٹپ ٹاپ رہنے والے ودود منظر کی شکل اور بڑی حد سٹائل یوسف خان (دلیپ کمار) سے ملتا تھا اور انہیں اس کا احساس تھا کچھ فطری اور کچھ شعوری کوشش سے ان کی بول چال اور انداز یوسف خان سے بہت ملتا جلتا تھا۔ انہوں نے نوشہرہ کالج میں ڈرامیٹک سوسائٹی بھی بنائی اور ایک بہت اچھا ڈرامہ ”ایک قہقہہ سو آنسو“ (اس سے ملتا جلتا کوئی نام تھا)پیش کیا،جس میں ایک بہت ہی مختصر سا رول میں نے بھی کیا، یہ زمانہ بچپن کا تھا لڑکپن کا تھا، خوابوں کی انگلی پکڑ کر مستقبل کے تاج محل تعمیر کرنے کی عمر تھی وقت کے ساتھ ساتھ سب کچھ بھول جاتا ہے، کب کون کہاں کس حال میں ملا تھا وہ جو ریاض مجید نے کہا ہے۔
جب اگلے سال یہی وقت آ رہا ہو گا
یہ کون جانتا ہے کون کس جگہ ہو گا
مگر میری خوش قسمتی کہ جب وزارت اطلاعات و نشریات کو چھوڑ کر لیکچر شپ جوائن کی تو نوشہرہ کالج بھی آیا جہاں پڑھا تھا وہاں پڑھانے کا موقع ملا، اور چار سال بعد جب پشاور ٹرانسفر ہوئی تو مجھے عبدالودود منظر کا رفیق کار ہونے کا اعزاز نصیب ہوا، مزید خوش قسمتی یہ رہی کہ جب عبدالکریم بلوچ کے کہنے پر میں نے پاکستان ٹیلی ویژن پشاور مرکز کے لئے اپنا پہلا اردو ڈرامہ ”کھلا دروازہ“ لکھا تو میرے ڈرامہ کے ہدایتکار معروف و مقبول پروڈیوسر جہاں زیب سہیل تھے۔ اور پھر ان کے لئے میں نے کئی ایک ڈرامے لکھے، ان کو قریب سے دیکھنے اور ان کے کام کو بہت قریب سے جانچنے پرکھنے کا موقع ملا، وہ خود ایک بہت اچھے فنکار تھے اور پی ٹی وی پشاور کے کئی ایک ہندکو پشتو اور اردو ڈراموں میں
بے پناہ پرفارمنس دی، ان کے ایک ہندکو ڈرامہ ”الا ؤ بلاؤ“ پر میں نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ جہاں زیب سہیل کی بے بدل خوبصورت پرفارمنس کی سنہری مچھلی کو ناقص ہدایتکاری کے مرتبان میں بند کر دیا تھا“ ان دنوں میں روزنامہ سرحد کا شو بز صفحہ ترتیب دیا کرتا تھا یہ اسّی کی دہائی کے اوائل کا ذکر ہے، پھر جب بھی ملتے یہ بات دہراتے۔ میرا بیٹا افراز جب ان کے سیریل ”واپسی“ میں چائلڈ سٹار کے رول میں کام کر رہا تھا شاید چھ برس عمر رہی ہو گی تو ان ڈور اور آؤٹ ڈور میں ان کے ساتھ میں بھی جایا کرتا تھا بھلے سے ڈرامہ میرا لکھا ہو یا کسی اور رائٹر کا اور واپسی بھی یونس قیاسی مرحوم کا لکھا ہوا تھا، اس کی آوٹ ڈور ریکارڈنگز مانسہرہ کے ”بٹراسی ریسٹ ہاؤس“ کے آس پاس ہوئی تھی اور کتنی ہی چاندنی راتیں ہم نے وہاں گزاریں جب افراز سو جاتا تو میں چپکے سے بٹراسی کی چاندنی سے رومینس کرنے سخت سردی میں کمرے سے باہر نکل آتا، اور جنگلہ کے پاس بہت رات گئے تک کھڑا رہتا، جب کمرے کی طرف آتا تو کمروں کے سامنے برآمدے کے ایک ستون کے ساتھ کمبل میں لپٹے ہوئے جہانزیب سہیل کو دیکھتا جو سکرپٹ بغل میں دبائے سگریٹ سلگائے ہاتھوں کے اشاروں سے فریم بنا رہا ہو تا۔ اس سفر میں جہانزیب سہیل کے شاعر ہونے کا بھی انکشاف ہوا ایک دن ریکارڈنگز سے قبل جب سب لوگ دیر سے جاگنے کی وجہ سے ابھی تیار ہو رہے تھے، سرما کی نرم گداز دھوپ میں ہم دونوں ڈرامہ پر بات کرتے کرتے شعر کی طرف مڑ گئے تھے کہنے لگے ایک شاعر کے شعر سنا تا ہوں، انہوں نے ایک دو چھوٹی نظمیں اور چیک دو غزلیں سنائیں اور پوچھا کیسی ہیں میں نے کہا بہت خوب، تب کہنے لگے ”شاہ جی یہ خاکسار کی ہیں“، میں تو خیر اپنے پچپن سے ان کی صلاحیتوں کا اسیر تھا،حیران کیا ہوتا مگر بہت اچھا لگا ایک بار کہنے لگے شاہ جی ایک بہت ہٹ سیریل (غالبا فرحت اللہ قریشی کی) آن ائیر ہوئی ہے، کوئی ایسا ڈرامہ لکھ دیں کہ”دو اکوڑہ وال“ سرخرو ہو جائیں۔ میں نے ڈرامہ ”جزیرہ“ لکھا تو جھوم اٹھے تھے۔ اور کیا عمدہ ڈائرکشن تھی وقت بے نیازی سے آگے بڑھتا جاتا ہے اور گزشتہ کل اس نے یہ دکھ بھری خبر سنائی کہ بے پناہ صلاحیت کا حامل جہاں زیب سہیل بھی اپنی باری بھر چلا۔ ساری آوازوں کا انجام ہے چپ ہو جانا،میں نے بٹراسی میں سنی ہوئی جہاں زیب سہیل کی غزل کے اس شعر کو بوجھل دل سے پرسا دیا۔
کہتے ہیں کہ جاں چیز بڑی پیاری ہے سب کو
کچھ لوگ مگر جان سے پیارے بھی ملے ہیں