یوں بھی اکثر ”بہار“ آئی ہے!

پہلی اور دوسری خوشخبری بالترتیب یہ ہے کہ صوبائی حکومت نے ارباب نیاز کرکٹ سٹیڈیم کی توسیع‘ تعمیرومرمت وغیرہ کا کام رواں ماہ (جولائی دوہزاربائیس) کے اختتام تک مکمل کرنے کی ہدایات جاری کی ہیں جبکہ کھیلوں (جسمانی کسرت) کی اِہمیت کا احساس کرتے ہوئے نوجوانوں کے لئے صحت مند سرگرمیوں کی فراہمی کو ”ترقیاتی ترجیحات“ کا حصہ بنایا گیا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ ”شاہی باغ“ پشاور کے ایک حصے میں تعمیر کئے گئے ”ارباب نیاز کرکٹ سٹیڈیم“ سے متعلق اکتوبر 2019ء میں کہا گیا تھا کہ جنوری 2020ء تک 1.3 ارب روپے لاگت کا یہ منصوبہ مکمل ہو جائے گا اور اب نئی تاریخ (جولائی 2022ء) سامنے آئی ہے۔ نومبر 1984ء میں تعمیر ہونے والے اِس سٹیڈیم میں تماشائیوں کی کل گنجائش 20 ہزار تھی جسے بڑھا کر 30 ہزار کرنے کا کام ’شیطان کی آنت‘ جیسا لمبا ہے کہ ہر سال گزرنے کے بعد بھی وہیں کا وہیں کھڑا دکھائی دیتا ہے۔ ارباب نیاز کرکٹ سٹیڈیم میں پہلا ’ون ڈے‘ 2 نومبر 1984ء (پاکستان بمقابلہ بھارت) جبکہ آخری ’ون ڈے‘ 6 فروری 2006ء کوبھی پاکستان بمقابلہ بھارت ہی کے درمیان ہوا تھا‘ جس سے دنیائے کرکٹ پر ’پشاور کرکٹ سٹیڈیم‘ کو پہچان و شہرت ملی تھی لیکن چونکہ یہ شاہی باغ کے ایک حصے میں تعمیر کیا گیا ہے اور دیگر تعمیرات (جن میں سرکاری دفاتر اور تعلیمی ادارے شامل ہیں) کی طرح یہ سٹیڈیم بھی ”تجاوزات“ میں شمار ہوتا ہے اِس لئے سٹیڈیم کے رقبے میں اضافہ نہیں کیا جا سکا اور اِس سٹیڈیم میں اگرچہ تماشائیوں کی گنجائش بڑھا دی گئی ہے کہ لیکن شاہی باغ کے گردونواح میں شاہراہیں اور گاڑیوں کی پارکنگ کی گنجائش انتہائی محدود ہے جو کسی عالمی معیار کی سہولت کے لئے یقینا ناکافی ہے۔ اصولاً تو شاہی باغ کے رقبے کو ”مال مفت دل بے رحم“ سمجھتے ہوئے 1984ء میں یہاں کرکٹ سٹیڈیم تعمیر ہی نہیں ہونا چاہئے تھا جبکہ پشاور کے اطراف میں میلوں میل پھیلی
 ایسی اراضی دستیاب ہے جہاں کھیتی باڑی نہیں ہوتی جیسا کہ پشاور کے جنوب میں ’متنی‘ کا علاقہ ضلع کی انتہائی حد تک جہاں سے براستہ درہ آدم خیل کوہاٹ اور کوہاٹ سے راولپنڈی اسلام آباد وسیع غیرآباد اراضی پڑی ہے جہاں ’سپورٹس سٹی‘ کے عنوان سے نہ صرف کھیل بلکہ رہائشی و تجارتی سرگرمیوں کا فروغ بھی ممکن ہے۔ مذکورہ علاقے شمسی توانائی سے منور کئے جا سکتے ہیں جو بیشتر چٹیل میدانی اور کوئلے کے ذخائر سے مالا مال علاقے کی قسمت بدل دیں گے۔ 
خیبرپختونخوا حکومت کے حالیہ اعلیٰ سطحی اجلاس (آٹھ جون دوہزاربائیس) میں پیش کردہ جامع حکمت عملی کھیل کے میدانوں اور سہولیات کی توسیع سے متعلق ہے اور اِس کے تحت خیبرپختونخوا کے تمام اضلاع (بشمول پشاور) میں تحصیل اور ’یونین کونسلوں‘ کی سطح پر کھیل کے میدان اور کھیلوں کی تربیت و سہولیات کی فراہمی کا نظام نہ صرف مرتب بلکہ اِسے معیاری (مثالی و بہتر) بھی بنایا جائے گا۔ آئندہ چند روز میں پیش کئے جانے والے نئے مالی سال (دوہزاربائیس تیئس) کے صوبائی بجٹ میں کھیل کے میدان و سہولیات کے بارے میں ’ترقیاتی منصوبہ‘ شامل ہوگا‘ جو ماضی میں تحریک ِانصاف کے انتخابی منشور کا حصہ رہا ہے اور اِس سے متعلق وعدے سال 2013ء اور 2018ء کے عام انتخابات سے قبل دستاویزی طور پر کئے گئے تھے۔ نئی حکمت عملی پر اخراجات کا تخمینہ ’3 
ارب روپے‘ لگایا گیا ہے اور اگر اِس منصوبے پر عمل درآمد اگلے مالی سال (2022-23ء) میں شروع (حسب توقع) کر دیا جائے تو منصوبہ بندی (ٹائم لائن) کے مطابق ترقیاتی کام 2024-25ء کے اختتام یعنی 3 برس میں مکمل ہو جائے گا۔ تین ارب روپے کا تخمینہ اِس بنیاد پر لگایا گیا ہے کہ جہاں کھیل کے میدان کے لئے اراضی کی خریداری کی ضرورت پڑے گی وہاں کھیل کے ایک میدان پر کل 2 کروڑ 80 لاکھ (اٹھائیس ملین) روپے اور جہاں اراضی پہلے سے موجود ہے وہاں فی میدان ’ڈیڑھ کروڑ (پندرہ ملین) روپے‘ لاگت آئے گی۔ حکمت عملی میں ہر یونین کونسل کی سطح پر کم سے کم ایک کھیل کا میدان جبکہ ایک اضافی میدان کی صورت سہولیات کو توسیع دی جائے گی۔ حکومت کے ان اچھے کاموں کی ’تعریف‘ ہونی چاہئے جو مکمل ہو چکے ہیں یا مکمل ہونے کے قریب ہیں جبکہ نیک ارادوں (ترقیاتی حکمت عملیوں) کی بھی ’توصیف‘ ہونی چاہئے کیونکہ بسا اوقات یہ بات (زاویہ) بھی یکساں اہم ہوتا ہے کہ حکومتی فیصلہ سازی کی سطح پر کسی مسئلے کو مسئلہ اور کسی ضرورت کو ضرورت سمجھا گیا۔ عوامی مسائل کے حل اور ضروریات و سہولیات کی فراہمی سے متعلق احساس بھی کسی نعمت سے کم نہیں البتہ جہاں بڑھتی ہوئی آبادی کے تناسب سے مستقبل کے بارے میں سوچنا ضروری ہے وہیں ماضی کی ان یادگاروں اور وسائل کا تحفظ و بحالی بھی ضروری ہے جن پر وقت اور مفادات کی گرد پڑنے کا سلسلہ اگر نہ رکا‘ تو وہ ’زندہ درگور‘ ہو جائیں گی جیسا کہ شاہی باغ‘ وزیرباغ‘ جناح پارک اور چاچا یونس پارک بحالی کے منتظر ہیں۔ اِن باغات اور سبزہ زاروں کی وجہ سے پشاور کو ”پھولوں کا شہر“ کہا جاتا ہے اور جہاں پھول‘ باغ‘ باغیچے نہ رہیں‘ وہاں ’بہار‘ جیسی نعمت دستک دینے کے بعد بے فیض گزر جاتی ہے! 
”مجھ کو اِحساس رنگ و بو نہ ہوا …… یوں بھی اکثر بہار آئی ہے (حبیب صدیقی)۔“