شمسی توانائی: روشن و تاریک پہلو

وفاقی بجٹ میں سورج کی روشنی سے بجلی پیدا کرنے کی ضروریات (سولر پینلز اور دیگر آلات) پر عائد محصول (ٹیکسیز) ختم کر دیئے گئے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ شمسی توانائی میں سرمایہ کاری کریں۔ شمسی توانائی کا شمار اُن ”ماحول دوست ذرائع“ میں ہوتا ہے جن کی مدد سے نسبتاً کم قیمت میں برسہا برس تک بجلی حاصل کی جا سکتی ہے اور اِس کے 2 بنیادی طریقے ہیں۔ پہلا طریقہ جسے ماحول دوست قرار جاتا ہے وہ یہ ہے کہ جب تک سورج اپنی آب و تاب کے ساتھ چمکتا رہے اُس وقت تک سورج کی روشنی کو ’سولر پینل‘ توانائی میں تبدیل کرتے رہیں اور اِس عمل سے حاصل ہونے والی ’12 واٹ‘ بجلی سے خاص قسم کے برقی آلات چلائے جائیں۔ پاکستان میں چونکہ بجلی 240 واٹ ہے اِس لئے گھریلو بجلی کے تمام آلات 240 واٹ کے ہوتے ہیں اور سولر پینل سے حاصل ہونے والی توانائی کو 240 واٹ میں تبدیل کرنے کے لئے دیگر آلات خریدنے پڑتے ہیں جن میں بجلی کو ذخیرہ کرنے کیلئے بیٹری بھی شامل ہوتی ہے۔ شمسی توانائی میں سرمایہ کاری کرنے کا خاص پہلو یہ بھی ہے کہ بجلی کی تقسیم کار کمپنی سے معاہدے کے بعد ’آن لائن میٹرنگ‘ کی سہولت حاصل کی جا سکتی ہے اور دن کے اوقات میں جبکہ سورج سے توانائی حاصل کی جا رہی ہوتی ہے تو اضافی بجلی واپڈا کو فروخت کر دی جاتی ہے اور رات کے اوقات کے وہی بجلی استعمال کرنے کی وجہ سے گھر‘ دکان یا دفتر کا بل انتہائی کم ہو جاتا ہے۔سورج کی روشنی سے بجلی کے حصول میں سرمایہ کاری کا یہی سب سے مناسب وقت ہے جبکہ شمسی توانائی کے آلات نصب کرنے کے لئے تربیت یافتہ (ہنرمند) افرادی قوت کی بھی کمی ہے تو حکومتی فیصلہ سازوں کو چاہئے کہ ’ٹیکنیکل تعلیم کے اداروں میں خصوصی تربیتی کورسز کا اجرا کریں تاکہ ’سولر پینلز‘ جنہیں مقامی طور پر ”شیشہ“ کہا جاتا ہے کی تنصیب زیادہ ہو اور تنصیب کے اخراجات بھی کم ہوں۔ سردست یہ کام جو ادارے کر رہے ہیں فی کلوواٹ کے حساب سے چارجز کرتے ہیں اور 5 کلوواٹ کا ایک سولر سسٹم کے آلات خریدنے پر اگر قریب 9 لاکھ روپے خرچ آتا ہے تو اِس کی تنصیب کیلئے مزید کم سے کم ایک لاکھ روپے کا تقاضا کیا جاتا ہے جو چند گھنٹوں کی مزدوری کا انتہائی زیادہ معاوضہ ہے اور جو کمپنیاں یہ سہولیات فراہم کر رہی ہیں وہ اپنے مزدوروں کو حکومت کی جانب سے کم سے کم ماہانہ تنخواہوں کی شرح کے مطابق ادائیگیاں بھی نہیں کر رہیں۔ اِس لمحہئ فکریہ کا ایک تاریک پہلو یہ بھی ہے اگرچہ حکومت نے سولر پینلز کی درآمد پر ٹیکسز معاف کر دیئے ہیں لیکن مارکیٹ میں سولر پینلز کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں جس کی بڑی وجہ طلب میں اضافہ لیکن دستیاب آلات اور تربیت یافتہ تکنیکی افرادی قوت کی کمی ہے۔

بدقسمتی ہے کہ کاروباری طبقات ہمیشہ ہی سے زیادہ منافع کمانے کیلئے مواقعوں کی تلاش میں رہتے ہیں اور گراں فروشی کے اِس عمومی رجحان کی وجہ سے قیمتوں میں اعتدال نہیں رہتا۔ فیصلہ سازوں کو شمسی توانائی آلات کی گراں فروشی کے بارے میں بھی حکمت عملی وضع کرنی چاہئے۔ تیسری اہم بات یہ ہے کہ عوام الناس کی شمسی توانائی سے متعلق معلومات انتہائی کم یا ناقص ہوتی ہیں جس کی وجہ سے وہ سرمایہ کاری کرتے ہوئے درست فیصلہ (انتخاب) نہیں کر پاتے۔ اِس سلسلے میں ذرائع ابلاغ (بالخصوص اُردو زبان کے اخبارات) بشمول سوشل میڈیا کو خصوصی ضمیمے شامل اشاعت و نشریات کرنے چاہئیں جنہیں کاروباری ادارے اپنی تشہیری مہمات کیلئے بخوشی استعمال کریں گے اور اِس سے معلومات عام ہونے کے ساتھ سولر آلات کی قیمتوں میں بھی اعتدال آئے گا۔ پاکستان میں ’پوڈکاسٹنگ‘ خاطرخواہ عام نہیں ہوئی ہے جبکہ ایسی معلومات مہمات کے لئے ’پوڈکاسٹنگ‘ کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ چوتھی بات سولر آلات میں سرمایہ کاری کے لئے بینکوں سے کم شرح سود پر قرضوں کے حوالے سے حکمت عملی تو موجود ہے لیکن اِس کا طریقہ کار انتہائی پیچیدہ اور مہنگا ہے۔ سماجی بہبود کے منصوبوں (صحت و راشن کارڈز کی طرح) پانچ کلوواٹ یا اِس سے زائد سے سولر منصوبوں کیلئے قرضہ جات فراہم کئے جا سکتے ہیں۔ عجیب و غریب منطق ہے کہ حکومت ’نجی بجلی گھروں (انڈی پنڈینٹ پاور پروڈیوسرز آئی پی پیز)‘ کو تو مراعات دیتی ہے جو گردشی قرض کا بڑا محرک ہے لیکن عام آدمی (ہم عوام) کو شمسی توانائی میں سرمایہ کاری کرنے کیلئے مالی مدد نہیں کرتی اور نہ ہی تکنیکی معلومات یا سولر آلات کی ’آن لائن‘ درآمدات کے لئے ادارے بناتی ہے!اکنامک سروے آف پاکستان (دوہزاراکیس بائیس) کے مطابق ”سال 2022ء کے اختتام تک پاکستان میں بجلی کی کل پیداواری صلاحیت (گزشتہ برس کے مقابلے ساڑھے گیارہ فیصد اضافے کے بعد) 41 ہزار 577 میگاواٹ ہے۔ اِس میں 15 فیصد فرنس آئل (تیل)‘ 24.7 فیصد پن بجلی (پانی)‘ 8.5 فیصد قدرتی گیس‘ 23.8 فیصد (درآمدی) مائع گیس‘ 9 فیصد کوئلے‘ 8.8 فیصد جوہری اُور 4.8 فیصد سولر یا ونڈ انرجی سے حاصل کی جاتی ہے۔ پاکستان کی ساڑھے بائیس کروڑ آبادی میں سے قریب 88فیصد کو بجلی میسر ہے جبکہ پاکستان میں فی کس بجلی کا استعمال 550 کلو واٹ اور عالمی سطح پر یہ اوسط 3 ہزار کلوواٹ سے زیادہ ہے! پاکستان میں دستیاب 90 فیصد شمسی آلات چین سے درآمد ہوتے ہیں اور چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے میں بھی 300 میگاواٹ کا ایک بجلی گھر شامل ہے لیکن ضرورت اِس امر کی ہے کہ چین سے سولر ٹیکنالوجی پاکستان منتقل کی جائے اور جب تک سولر پینل و دیگر آلات و ضروریات مقامی طور پر تیار نہیں ہوں اِن کی وافر دستیابی بھی ممکن نہیں ہو گی اور نہ ہی ملک میں متبادل توانائی یعنی ’شمسی انقلاب‘ آ سکے گا۔

توجہ طلب ہے کہ ملک میں توانائی کا بحران صرف برقی رو (الیکٹرسٹی) کی کمی کے باعث نہیں بلکہ ضرورت سے زائد بجلی کی پیداواری صلاحیت بھی ایک مسئلہ ہے۔ بجلی کا ترسیلی نظام بوسیدہ ہونے کے باعث قریب پچیس فیصد بجلی ضائع ہو جاتی ہے جس میں چوری ہونے والی بجلی بھی شامل ہے اور اِس جیسے مسائل کے حل کیلئے وفاقی حکومت نے آئندہ مالی سال (2022-23ء) کے بجٹ میں ڈھائی ارب (2500ملین) روپے بجلی کے ترسیلی نظام کو بہتر بنانے کیلئے مختص کئے ہیں لیکن وفاقی بجٹ میں شمسی توانائی میں سرمایہ کاری کرنے والوں کیلئے ماسوائے ٹیکس رعایت کسی بھی قسم کی مراعات کا اعلان نہیں کیا گیا۔ ایک ایسی صورت میں جبکہ براہ راست بیرونی سرمایہ کار (فارن ڈائریکٹ انوسٹمنٹ) منہ موڑ چکے ہیں‘ اگر حکومت مقامی وسائل اور مقامی سرمایہ کاری کو سٹیٹ بینک کے ذریعے پرکشش بنائے تو سستی اور ماحول دوست بجلی کے حصول کا تصور ناممکن سے ممکن بنایا جا سکتا ہے۔