مقامی ادب کے گوہرگراں مایہ

موجودہ ملکی حالات کو دیکھ کر کہوار زبان کے نامور شاعر، موسیقار اور صداکار بلبل چترال امیرگل امیر کے کلام کا ایک قطعہ یاد آتا ہے۔”دوش پھک جم اوشوئی، ہنونو سار پنگاچھوئی پھک خور، دنیو مثال ازیزانہ نیگیرو شوغور،، فلک کوسوم وفا کوری شیر،وا کوسوم بہچور“بلبل چترال کہتے ہیں کہ گذرا ہوا کل آج کے دن سے بہتر تھا اور آج کا دن آنے والے کل سے بہتر ہوگا۔ اس جہاں فانی کی مثال اس مخصوص چھلنی سے چھانی ہوئی ریت جیسی ہے جس میں سے سونے کے ذرات الگ کئے جاتے ہیں۔دنیا نے آج تک کسی سے وفا نہیں کی اور نہ ہی آئندہ کسی کو اس سے وفا کی آس لگانی چاہئے۔قارئین کرام امیرگل امیر کے ان الفاظ سے ان کے خیالات کی بلندی اور گہرائی کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ادب میں ان کے رتبے اور مقام کا اندازہ ان کے کلام سے چند منتخب اشعار سے لگایاجاسکتا ہے۔

کہتے ہیں ”کسی سے محبت ہونا اس کے وصل کی ضمانت نہیں جب تک خدااس محبت کی کشتی کو پار لگانا چاہے۔انسان اپنی قابلیت سے کچھ نہیں کر سکتا، نصیب، رزق اور موت خدا کے ہاتھ میں ہیں تاہم جن سے آپ کو محبت کا جواب محبت سے نہ ملے ان سے گلہ تو ہمیشہ رہتا ہے۔ایک اور موقع پر امیرگل کہتے ہیں کہ ”کیڑیمان چھوئی انوس تہ جداگیو وسوسہ، صفت تہ تھانو کومان تن ہردیو دلاسہ“ یعنی تیری جدائی نے مجھے یہ روگ لگادیا کہ دن رات میری آنکھوں سے آنسو رواں رہتے ہیں۔تیرے سراپے کی تعریفیں کرکے اپنے دل کو دلاسہ دینے کی کوشش کرتا ہوں۔ایک اور جگہ یوں گویاہوتے ہیں کہ ”ای موش اریر مجنونو سار سوال، لیلو جداگیا تہ کیہ حال، مو وصلوچے فراقو کیچہ خال، موغار خلاص عقل کویا کہ مال، مجنون ریتائی خدائی لایزال“یعنی ایک شخص نے مجنون سے سوال کیا کہ لیلیٰ سے جدائی میں تجھ پر کیابیت رہی ہے۔ محبوب کے ساتھ میلاپ اور پھر جدائی کے جذبات کیسے ہوتے ہیں۔مرض عشق سے مال و دولت خرچ کرکے جان چھڑائی جاسکتی ہے یا عقل کے پاس اس کا کوئی حل ہے؟مجنون نے جواب دیا کہ اس کا حل صرف خالق لایزال کے پاس ہے۔

امیرگل نے اُردو اور فارسی میں بھی طبع آزمائی کی ان کی ایک غزل سے احمد ندیم قاسمی اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے امیرگل کو ادب کا قومی ایوارڈ دینے کی سفارش کی۔اس غزل میں امیرگل کہتے ہیں۔ہے دامن گل چاک کھڑا لالہ زار میں۔بلبل پہ بجلیاں نہ گراؤ بہار میں۔ ہے غوطہ زن سمندر الفت میں صد ہزار، سب بے قرار ہیں تو میں ہوں کس شمار میں۔دور اُفتادہ پہاڑوں کے دامن میں بسنے والے کہوار زبان کے اس شاعر کے کلام کا اردو، فارسی، عربی اور انگریزی کے کسی بھی بڑے شاعر کے کلام سے موازنہ کیاجاسکتا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ مقامی ادب کے ان شہسواروں کے افکار اور شاہکاروں کو منظر عام پر لایاجائے، انہیں نصاب میں شامل کیاجائے تاکہ آئندہ نسل بھی ان سے متعارف ہو۔ ان کی تخلیقات کی مختلف زبانوں میں ترجمے کرنا بھی ادبی انجمنوں کی ذمہ داری بنتی ہے تاکہ ان شاہکاروں کو محفوظ کیاجاسکے۔