پاک چین تعلقات

عالمی حالات اور ممالک کے درمیان تعلقات بالخصوص چین و مغربی دنیا کے درمیان کشیدگی کے دور میں پاک چین دوستی اور تعمیروترقی میں پاکستان کی عسکری قیادت کا دورہئ چین اور سٹرٹیجک (تزویراتی) شراکت داری سے متعلق دونوں ممالک کی جانب سے عزم کا اعادہ کیا گیا ہے جو نہایت ہی اہم پیشرفت ہے۔ اِس سلسلے میں جاری کردہ ایک سرکاری بیان میں کہا گیا کہ مشکل (چیلنجنگ) وقت میں ”تزویراتی شراکت داری“ قائم رہے گی۔ ذہن نشین رہے کہ پاکستان کی تینوں عسکری سروسز یعنی بری‘ بحریہ اور فضائیہ کے اعلیٰ فوجی عہدیداروں پر مشتمل ایک اعلیٰ سطحی پاکستانی وفد نے 9 سے 12جون ”پاکستان چائنا جوائنٹ ملٹری کوآپریشن کمیٹی“ کے اجلاس میں شرکت کی اور اِس سلسلے میں اِن کا دورہئ چین خاص اہمیت کا حامل رہا۔ پاکستان کے آرمی چیف اور چین کے سینٹرل ملٹری کمیشن کے وائس چیئرمین مذکورہ کمیٹی کا حصہ ہیں۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ بارہ جون کے روز فوجی وفد میں شامل ہوئے اور اعلیٰ چینی فوجی جرنیلوں کے ساتھ اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کی۔ دونوں ممالک کے درمیان اعلیٰ سطحی فوجی تعامل ایک نازک موڑ پر آیا جب چین اور امریکہ و اِس کے اتحادی ممالک کے درمیان کشیدگی ہر دن بڑھ رہی ہے۔ رواں ہفتے کے اوائل میں امریکہ اور چینی وزرائے دفاع نے علاقائی سلامتی کے مذاکرات کے موقع پر سنگاپور میں بھی ملاقات کی تھی لیکن دونوں فریقوں نے تائیوان اور روس یوکرائن تنازعہ سمیت بہت سے معاملات پر ایک دوسرے کے مؤقف سے اتفاق نہیں کیا اور اختلاف سے شروع ہونے والی مذکورہ ملاقات اختلاف ہی پر ختم ہوئی۔پاکستان کو روس یوکرائن تنازعہ پر اپنا مؤقف تبدیل کرنے کیلئے مغرب کی جانب سے بھی نمایاں دباؤ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جبکہ حکومت کی تبدیلی کے بعد سے پاکستان سخت ترین معاشی و اقتصادی دور سے گزر رہا ہے اور پاکستان کے داخلی حالات سے متعلق نازک دور میں اگر پاکستان کی معاشی ترقی اور مالیاتی سہارے کے لئے کسی ایک ملک کی جانب نظریں اُٹھ رہی ہیں تو وہ عوامی جمہوریہ چین ہی ہے‘ جس نے مشکل کی ہر گھڑی میں پاکستان کی مدد کی ہے۔ پاک فوج کے ترجمان شعبے (میڈیا ونگ) ’انٹرسروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر)‘ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ”پاکستان کے عسکری وفد نے چینی فوج اور دیگر سرکاری محکموں کے اعلیٰ حکام کے ساتھ تعاون کے مختلف اور وسیع امکانات پر بات چیت کی۔ اپیکس کمیٹی اجلاس میں پاکستانی وفد کی سربراہی جنرل باجوہ جبکہ چینی وفد کی قیادت وائس چیئرمین سنٹرل ملٹری کمیشن ’جنرل ژانگ یوکسیا‘ نے کی۔ دونوں فریقین نے بین الاقوامی اور علاقائی سلامتی کی صورتحال پر اپنے اپنے نقطہئ نظر پر تبادلہئ خیال کیا اور دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعاون پر اطمینان کا اظہار کیا۔ پاکستان اور چین نے چیلنجنگ دور میں اپنی تزویراتی شراکت داری کا اعادہ کیا ہے اور باہمی دلچسپی کے امور پر باقاعدگی سے تبادلہئ خیال جاری رکھنے پر بھی اتفاق کیا ہے جو دونوں ممالک کی فوجی قیادت کے درمیان پائی جانے والی ہم آہنگی کا عکاس ہے۔ دونوں فریقین نے سہ سروس (بری‘ بحری‘ فضائیہ) کی سطح پر تربیت‘ ٹیکنالوجی اور اِنسداد دہشت گردی کیلئے ایک دوسرے سے تعاون بڑھانے کے عزم کا بھی اظہار کیا جو تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں اہم پیش رفت ہے اور اِس کے پیش نظر عسکری سفارت کاری اور فوجی تعاون کو زیادہ اہمیت حاصل ہوگئی ہے۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ ”پاک چین مشترکہ فوجی تعاون کمیٹی دونوں ممالک کے درمیان عسکری تعاون کا سب سے بڑا ادارہ ہے اور کمیٹی کی دو ذیلی کمیٹیاں ہیں جن میں مشترکہ تعاون فوجی امور (جے سی ایم اے) اور مشترکہ تعاون فوجی سازوسامان اور تربیت (جے سی ایم ای ٹی) شامل ہیں۔“خاص بات یہ ہے کہ پاک چین تعلقات میں حالیہ برسوں کے دوران بالخصوص دفاع سمیت تمام شعبوں میں بہتری آئی ہے جس کا ایک مظہر چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے بھی ہیں‘ جو عالمی دباؤ اور مخالفت کے باوجود تیزی سے مکمل ہو رہے ہیں۔ پاکستان اپنی دفاعی ضروریات اور فوجی سازوسامان کے لئے چین پر انحصار کرتا ہے۔ حال ہی میں چین نے پاکستان کو جے 10 لڑاکا طیارے فراہم کئے ہیں۔ پاکستان واحد ایسا ملک ہے جسے جے ٹین جنگی طیارے فراہم کئے گئے ہیں اور یہی جنگی طیارے چین کی فضائیہ بھی استعمال کرتی ہے۔ جے ٹین جنگی طیاروں کی پاکستان کو فراہمی دونوں فریقوں کے درمیان گہرے فوجی تعلقات کا اظہار ہے۔ عموماً پاکستان اپنی کم سے کم دفاعی ضروریات کیلئے چین کے علاوہ جن دیگر ممالک سے جنگی طیارے یا اسلحہ خریدتا ہے تو وہ ممالک جدید اسلحہ فروخت نہیں کرتے یا اُس اسلحے کی ایک کمترین شکل فروخت کرتے ہیں جو اُن کی اپنی افواج کے زیراستعمال ہو تاکہ اُنہیں پاکستان کی دفاعی صلاحیت پر برتری رہے لیکن چین نے پاکستان کو وہی جنگی طیارے فراہم کئے ہیں جن کا استعمال وہ اپنی دفاعی ضروریات کیلئے کرتا ہے اور یہ بہت ہی خاص بات ہے کہ چین کی سیاسی و عسکری قیادت پاکستان کے دفاع کو اپنا دفاع اور پاکستان کی سلامتی کو اپنی سلامتی سمجھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان پر ہمیشہ ہی سے دباؤ رہا ہے کہ وہ چین اور مغرب کے درمیان تعلقات میں کچھ توازن برقرار رکھے یعنی چین سے دوری اختیار کرے لیکن خطے میں امریکہ کے کثیرالجہتی اور سٹرٹیجک مفادات اور نئی سرد جنگ کے خطرات کے پیش نظر پاکستان کیلئے عالمی تعلقات میں توازن برقرار رکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے اور اِس سے بھی زیادہ مشکل پاکستان کیلئے اِس بات کا فیصلہ ہے کہ وہ چین پر کسی بھی دوسرے ملک کو ترجیح دے۔ چین کے ساتھ قریبی تعلقات برقرار رکھنا پاکستان کی خارجہ پالیسی کا مرکزی حصہ ہے۔ پاکستان نے 1972ء میں امریکی صدر (رچرڈ نکسن) چینی دورے کو ممکن بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا جس کے بعد چین کو امریکہ سمیت مغربی ممالک کی منڈیوں تک رسائی بھی ملی اور عالمی سیاست میں چین کے مؤقف کو توجہ سے سنا جانے لگا۔ درحقیقت پاک چین تعلقات ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ اور ایک دوسرے کی ضروریات کو پیش نظر رکھنے کیلئے ایک ”غیرمشروط تعاون“ کا ہے اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان اور چین کے تعلقات کو پہاڑوں سے زیادہ اونچا‘ سمندروں سے زیادہ گہرا‘ فولاد سے زیادہ مضبوط اور شہد سے زیادہ میٹھا قرار دیا جاتا ہے‘ اور یہ پاک چین ’مثالی دوستی‘ ہر مشکل‘ آزمائش‘ آفت یا امتحان اور زاویئے یا پیمانے سے دیکھنے پر پوری بھی اُتری ہے۔
جہاں تکچین کی علاقائی تجارت پر بڑھتے ہوئے غلبے اور کامیاب معاشی حکمت عملیوں کا  تعلق  ہے تو چین خطے کی تجارت میں امریکہ کے مقابلے میں تقریبا ڈھائی گنا زیادہ حجم کرتا ہے۔ چین اب تقریبا ہر ایشیائی ملک کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے اور یہ صورتحال چین کے حق میں اس وقت مزید بڑھ جائے گی جب صدر شی جن پنگ کا تصور ”بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (BRI)“ مکمل ہو جائے گا اور اِس میں چین کی بے تحاشہ سرمایہ کاری جاری ہے۔ ’بی آر آئی‘ نامی سرمایہ کاری پروگرام میں پاکستان اور قازقستان مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں اور اِنہی دو ممالک کے تعاون سے چین کو خطے پر معاشی غلبہ ناقابل تسخیر بنانے کا موقع مل رہا ہے‘ جسے مغربی دنیا اپنے لئے خطرے کے طور پر دیکھ رہی ہے حالانکہ ’بی آر آئی‘ سے جڑنے میں مغربی ممالک کیلئے بھی ترقی کے وسیع امکانات ہیں۔ پاکستان میں بلوچستان کے ساحل پر گوادر کی بندرگاہ کو کئی موٹر ویز کے ذریعے سنکیانگ (چین) سے منسلک کر دیا گیا ہے۔ اگر موجودہ منصوبوں پر عمل درآمد کیا گیا تو گوادر ایشیا کی بڑی بندرگاہوں میں سے ایک بن سکتا ہے اور یہاں متحدہ عرب امارات جیسا معاشی انقلاب ممکن ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ چین کا بڑھتا ہو اثرورسوخ امریکہ کیلئے پریشانی کا باعث ہے اور ہونا بھی چاہئے کیونکہ سال 2018ء کے بعد سے چین کی خطے کے ممالک میں سرمایہ کاری امریکہ سے بڑھ گئی ہے جو امریکہ کے مقابلے 75فیصد ہے اور تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ یہی وہ رجحانات ہیں جنہوں نے صدر باراک اوباما کی سربراہی میں انتظامیہ کو سخت محنت کرنے اور ٹرانس پیسیفک پارٹنر شپ معاہدہ (ٹی پی پی) شروع کرنے پر آمادہ کیا ہے جو اب تک کا سب سے بڑا تجارتی بلاک ہے۔ صدر اوبامہ نے چین کو مذکورہ معاہدے میں شامل نہیں کیا اور بیجنگ نے اس کے جواب میں ایک علیحدہ علاقائی تجارتی گروپ تشکیل دیا جسے علاقائی جامع اقتصادی شراکت داری (آر سی ای پی) کہا جاتا ہے لیکن ڈونلڈ ٹرمپ ان تمام پالیسی اقدامات کے دائرہ کار کو کم کرنے کیلئے بے چین تھے جسے اُن کے پیشرو (جو بائیڈن) عملی جامہ پہنایا لیکن وقت نے ثابت کیا ہے کہ عالمی سطح پر چین کی جس قدر بھی مخالفت کی گئی یہ اُتنا ہی اُبھر کر سامنے آیا ہے۔