ہمارے نمائندے کی رپورٹ کے مطابق صوبے کے سب سے بڑے طبی مرکز لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں گذشتہ ایک سال کے دوران مختلف جنگلی اور پالتو جانوروں کے کاٹنے سے سات ہزار سے زیادہ افراد کو علاج کیلئے لایاگیا۔ ایل آر ایچ میں جانور گزیدہ افراد کے علاج کے حوالے سے جو اعدادوشمار سامنے آئے ہیں ان کے مطابق 4778 سے زائد افرادکتوں کے کاٹنے سے زخمی ہوئے‘213شہری بلیوں، 35گدھوں، پانچ افراد بکریوں کے غم و غصے کا نشانہ بن کر زخمی ہوئے اور ہسپتال پہنچ گئے۔ 8افراد زہریلی مکھیوں، 8ہی گیڈروں‘5چھپکلی کی ایذا رسانی کا نشانہ بنے۔ سورنے 3 اوربھینسوں نے 39 افراد کو کاٹا‘ ہسپتال والوں نے شکوہ کیا ہے کہ گذشتہ 7سالوں کے دوران کتے بلیوں سمیت مختلف جانوروں کے کاٹنے سے زخمی ہونے والے ایک لاکھ 26افراد کا ہسپتال میں علاج کیاگیا۔اب بھی روزانہ کم از کم 30مریض ایسے لائے جاتے ہیں جو جانوروں کی ایذارسانی کا نشانہ بنے ہوتے ہیں۔طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ کوئی بھی جانور اگر انسان کوسرپرکاٹے تو وہ تین دنوں کے اندر ریبیز نامی بیماری میں مبتلا ہوجاتا ہے۔
ہاتھوں اوربالائی جسم پر چوٹ کی صورت میں 40دن اور پاؤں پر کاٹنے پرمریض کو 60سے 90دن یہ بیماری لاحق رہتی ہے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر جانور کے کاٹنے سے کوئی شخص زخمی ہوجائے تو علاج میں تاخیر سے وہ پاگل ہوجاتا ہے یا پھر موت سے دوچار ہونے کا خطرہ ہے۔ اگر جانور باؤلا ہوکر کاٹے تو انسان کا پاگل ہونا یقینی ہے۔ اس لئے احتیاط لازم ہے کیونکہ جانور مذاق مذاق میں اپنے مالک یا راہ چلتے لوگوں کو نہیں کاٹتے۔ یا تو وہ جانور باؤلا ہوکر ہر کسی کو کاٹنے کو دوڑتا ہے یا پھر انسانوں کے تنگ کرنے سے اکتا کر اپنا غصہ اتارتا ہے۔اردو کا محاورہ ہے کہ بھونکتے ہوئے کتے کاٹتے نہیں۔ اس پر ایک سگ گذیدہ شاعر نے یہ اعتراض اٹھایاتھا کہ کیاپتہ، کسی دن کتا بھونکنا بند کردے اور کاٹنا شروع کردے۔اس لئے کتوں سے ہمیشہ بچ کر رہنا چاہئے۔
ایک رپورٹ کے مطابق جانوروں کے کاٹنے سے پوری دنیا میں سالانہ 55ہزار لوگ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں اور زیادہ تر لوگ گیدڑ‘ لومڑی‘ بھیڑیا‘ نیولا‘چمگادڑ، پالتو کتوں، بلیوں، گدھوں اور گھوڑوں کی ستم سامانیوں کا شکار ہوتے ہیں۔ انگریز لوگ انسانوں کے مقابلے میں جانوروں سے زیادہ لگاؤ رکھتے ہیں اور ان کے ساتھ وقت گذارتے ہیں اس لئے وہ ہمارے مقابلے میں زیادہ خطرے کی زد میں ہوتے ہیں۔ماہرین کا مشورہ ہے کہ جانور کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کرنا بھی خطرناک ہے اور زیادہ لاڈ پیار سے بھی وہ بگڑ جاتا ہیں اس لئے ان سے فاصلہ رکھنا ہی بہتر ہے۔ خاص کر بچوں کے حوالے سے اس ضمن میں زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے کہ وہ اس خطرے سے دوچار نہ ہوں کیونکہ وہ جانوروں کی طرف زیادہ مائل ہوتے ہیں۔