سماجی تحفظ

قومی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے آمدن و اخراجات کے میزانیوں میں قدر مشترک یہ ہے کہ اِن میں ہر سال (ہمیشہ) غریبوں کی بہبود کیلئے مالی وسائل (فنڈز) مختص کئے جاتے ہیں۔ غربت میں کمی یا غربت کے خاتمے پر اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود  غربت میں کمی کا ہدف حاصل نہیں ہورہا ہے اور نہ ہی ’سماجی تحفظ‘  کا۔ وقت ہے کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور احساس پروگرام کے ذریعے غربت کی شرح کم کرنے کے معروف اقدامات کا جائزہ لیا جائے اور اِن حکمت عملیوں کے ذریعے طے شدہ اہداف کی کامیابیوں اور ناکامیوں کے محرکات کو شمار کیا جائے۔ بینظیر انکم سپورٹ کے مقابلے احساس پروگرام زیادہ وسیع اور شفاف خطوط پر استوار کیا گیا جس میں کم آمدنی والے طبقات کیلئے قدرے وسیع پیمانے پر فلاحی اقدامات کئے گئے اور اِس میں یوٹیلٹی سٹورز کا بھی استعمال کیا گیا جس کے ذریعے اشیائے ضروریہ پر سبسڈی دی گئی جبکہ مفت خوراک اور مفت پناہ گاہیں بھی اِسی احساس پروگرام کا حصہ تھیں لیکن اصل ضرورت اِس بات کی ہے کہ ملک میں ”کم از کم اجرت“ سے متعلق قوانین و قواعد پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے اور اِس سلسلے میں وفاق اور صوبے الگ الگ شرح سے ”کم از کم اُجرت“ کا تعین کرنے کی بجائے ایک یکساں شرح نہ صرف مقرر کریں بلکہ اُس پر عمل درآمد بھی یقینی بنائیں۔ حال ہی میں وفاقی حکومت نے غیر ہنرمند کارکنوں کے لئے کم از کم ماہانہ اجرت ”پچیس ہزار روپے“ مقرر کی ہے لیکن اِس ماہانہ اُجرت کی شرح پر عمل درآمد ازخود نہیں ہوگا۔بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے عنوان سے سماجی تحفظ میں معاشرے کے پسماندہ اور بالخصوص خواتین کو زیادہ اہمیت دی گئی تھی اور اِس حکمت عملی کا مقصد ”غربت کا مقابلہ کرنے والے خاندانوں کی زندگیوں میں پائیدار مثبت تبدیلی“ لانا ہے لیکن بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سے مستفید ہونے والوں میں غیرمستحق افراد کے نام بھی سامنے آئے جسے روکنے کیلئے احساس پروگرام کو سائنسی بنیادوں پر مرتب کیا گیا تاکہ محتاج و محروم خاندانوں کی زندگیوں میں پائیدار مثبت تبدیلی لانے کا مقصد حاصل کیا جا سکے لیکن یہ ہدف بھی باوجود کوشش حاصل نہیں کیا جا سکا ہے۔

پاکستان میں غربت کے خاتمے کیلئے سماجی تحفظ سے متعلق حکمت عملی کی ناکامی کی وجوہات پیچیدہ اور ہمہ جہت ہیں۔ غربت کے خاتمے کی کوئی بھی تدبیر اُس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک کہ وہ غربت کا باعث بننے والے بنیادی محرکات (وجوہات) کے حل کو اہمیت نہ دے۔ پاکستان میں غربت کی شرح سال دوہزار پانچ میں پچپن فیصد تھی۔ یہ سال 2015 میں کم ہو کر 39 فیصد ہوئی اور 2018ء میں مزید کم ہوئی لیکن 2019ء کے آخر میں کورونا وبا کی وجہ سے سال ہا سال کی محنت ضائع ہو گئی اور افراط زر کے عالمی محرکات کا اثر پاکستان میں مہنگائی کی شرح میں نمایاں اضافے کی وجہ بنا۔ اس بات پر اختلاف کی گنجائش بہت کم ہے کہ غربت پیدا ہونے کی وجہ (محرک) تعلیم یا ہنرمندی کی کمی اور خراب صحت ہے۔ غربت کی شرح میں کمی اُس وقت تک ممکن نہیں ہو گی جب تک معیاری تعلیم و ہنرمندی کے مواقع عام نہیں کئے جاتے اور یہ زیادہ مشکل کام نہیں ہے۔بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت گزشتہ مالی سال کے کل قومی اخراجات 8487 ارب روپے کا صرف 2.89 فیصد حصہ یعنی 246ارب روپے مختص کئے جبکہ مالی سال 2021-22ء میں قومی قرضوں کی ادائیگی کیلئے وفاقی خزانے سے 3060ارب روپے ادا کئے گئے جو قومی آمدنی کے تناسب سے 36فیصد ادائیگی ہے۔

قومی قرضوں میں ہر سال اضافہ ہونے کی وجہ سے اِن پر سود اور قرض کی قسط ادا کرنے کے لئے ہر سال زیادہ مالی وسائل کی ضرورت پڑتی ہے جبکہ آبادی بڑھنے کے تناسب سے زیادہ افراد کو سماجی تحفظ چاہئے ہوتا ہے اور اِس سے پیدا ہونے والا عدم توازن دیگر تمام خوبیوں پر حاوی ہے۔احساس پروگرام کی جامعیت کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ 288 حکمت عملیوں (پالیسیوں) کا مجموعہ تھا جس کا ایک جز ”احساس راشن رعایت“ کے نام سے ’نومبر 2021ء‘ میں شروع کیا گیا اور اِس کے ذریعے ملک بھر میں 2 کروڑ (بیس ملین) خاندانوں سے تعلق رکھنے والے 13 کروڑ افراد کا احاطہ کرنے کیلئے 120 ارب روپے سبسڈی دی گئی۔ ذہن نشین رہے کہ پاکستان میں کسی ایک خاندان میں شامل افراد کی اوسط تعداد 6.24 ہے اور اگر کسی خاندان کو اوسطاً ایک ہزار روپے ماہانہ سبسڈی دی جاتی ہے تو یہ یومیہ پانچ روپے فی کس مدد ہے اور ظاہر ہے کہ پانچ روپے یومیہ سے خاطرخواہ کفالت ممکن نہیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ غربت کا بوجھ زیادہ لیکن اِس بوجھ کو کم کرنے کی کوششیں خاطرخواہ وسیع نہیں ہیں‘ ایک موقع پر مذکورہ ’احساس پروگرام‘ ہی  کے تحت ملک کے 7 بڑے شہروں (راولپنڈی‘ اسلام آباد‘ لاہور‘ فیصل آباد‘ ملتان‘ گجرانوالہ اور پشاور) میں 16 ٹرک چلائے گئے.

جو ”کوئی بھوکا نہ سوئے“ کے عنوان سے ایک منفرد کوشش تھی لیکن اِس حکمت عملی کے بھی خاطرخواہ نتائج برآمد نہ ہوئے۔ موجودہ وفاقی حکومت نے حال ہی میں ”ایک کروڑ چالیس لاکھ (چودہ ملین) خاندانوں“ کیلئے امدادی پیکج کا اعلان کیا ہے جس میں ماہانہ 2ہزار روپے کی فوری امداد شامل ہے‘ جو ظاہر ہے کہ مہنگائی کی شرح کو مدنظر رکھتے ہوئے کافی نہیں ہیں۔ ”سماجی تحفظ“ سے متعلق حکمت عملی کو ازسرنو مرتب کرتے ہوئے اِس میں معیاری تعلیم و ہنرمندی اور اچھی صحت عامہ کو شامل کرنا ہوگا۔ اِس سلسلے میں عوامی جمہوریہ چین کی مثال موجود ہے جہاں غربت کی قومی شرح 98 فیصد سے کم کر دی گئی۔ 1994ء سے 2000ء تک کیلئے انسداد غربت  کا پروگرام شروع کیا گیا اور سات برس میں 8 کروڑ  افراد جن میں بیشتر چین کے دیہی علاقوں میں رہتے تھے کو خط غربت سے بلند کر دیا گیا۔ چین میں ساڑھے بارہ کروڑ افراد خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے تھے جن میں سے 8 کروڑ افراد معاشی طور پر کسی کے محتاج نہیں رہے اور باقی ماندہ ساڑھے چار کروڑ کم آمدنی والے طبقات کی بہبود کے لئے بھی ”تعلیم‘ ہنرمندی اور اچھی صحت“ کی سہولیات فراہم کرنے کے اقدامات کا سلسلہ جاری ہے جس کے اثرات واضح طور پر نظر آنے لگے ہیں اور چین کی مثالی ترقی پر دنیا حیران ہے۔