حکومت کی سالانہ آمدنی و اخراجات کا میزانیہ (حالیہ بجٹ) کے وائٹ پیپر میں درج اعدادوشمار لائق توجہ ہیں جن کا ایک باب خیبر پختونخوا میں ”پے اینڈ پنشن بل“ سے متعلق ہے اور اِس فرسودہ نظام میں اصلاحات کیلئے صوبائی حکومت نے کئی ایک اصلاحات متعارف کروائی ہیں‘ جنہیں اگر قومی مفاد کے نکتہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ قابل فہم اور ناگزیر حد تک ضروری دکھائی دیتی ہیں اعدادوشمار میں کہا گیا ہے کہ مجموعی طور پر خیبر پختونخوا میں موجودہ ملازمین اور ریٹائرڈ افراد کے درمیان 1:4 تناسب تھا۔ اس میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ مالی سال دوہزار اکیس بائیس میں اجرت کے بلوں میں سولہ اعشاریہ چھ فیصد کی شرح سے اضافہ ہوا جبکہ مالی سال دوہزار بائیس تئیس یہ یہ شرح نمو ساڑھے چوبیس فیصد سے زیادہ ہے۔ یہ صورتحال کس قدر خطرناک ہے اور ہر سال پنشن حاصل کرنے والوں کی تعداد میں کس تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اِس بات کو سمجھنے کیلئے مالی سال دوہزارتیرہ چودہ کے اعدادوشمار کو دیکھا جا سکتا ہے جب خیبرپختونخوا میں پنشن کی ادائیگی کیلئے سالانہ کل 21 ارب روپے درکار تھے اور اب یہ رقم بڑھ کر 107 ارب روپے سے تجاوز کر گئی ہے! جبکہ جس شرح سے پنشن اخراجات بڑھ رہے ہیں تو تخمینہ ہے کہ اگلے بجٹ کی دستاویزات میں یہ اخراجات 479 ارب روپے تک جا پہنچیں گے۔
پنشن کی طرح خیبرپختونخوا کے خزانے پر سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کا بوجھ بھی ناقابل برداشت حدوں کو چھو رہا ہے۔ سال 2013-14ء میں 119 ارب روپے ’بیوروکریسی‘ کی سالانہ تنخواہوں پر خرچ ہوتے تھے جو گزشتہ مالی سال (2021-22ء) کے دوران 119 ارب روپے تھا اور آئندہ مالی سال (2022-23ء) میں سرکاری ملازمین کی کل تنخواہ کیلئے 345 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں جبکہ تخمینہ یہ بھی ہے کہ سال کے اختتام تک یہ رقم 372ارب روپے تک جا پہنچے گی۔ اگر یہ رجحان برقرار رہتا ہے جس کے برقرار رہنے کی علامات واضح ہیں تو اِس سے ایک ایسا بحران جنم لے گا جس میں خیبرپختونخوا کے مالی وسائل کا بڑا حصہ ہر سال سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن کی نذر ہو جایا کرے گا اور اگر تنخواہوں اور پنشن کی ادائیگیوں میں بڑھتی ہوئی شرح کو مدنظر رکھا جائے تو سال 2027ء میں صوبائی ترقیاتی پروگرام سے زیادہ مالی وسائل تنخواہوں اور پنشن پر خرچ ہو رہے ہوں گے جو ایک انتہائی خطرناک صورتحال ہو گی کیونکہ ایک طرف تنخواہوں اور پنشن میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے اور دوسری طرف سرکاری ملازمین کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔
اس حوالے سے مستقبل کو مدنظر رکھتے ہوئے اقدامات اٹھانے کے لئے منصوبہ بندی ضروری تھی کیونکہ وقت گزرنے کے ساتھ کم وسائل پر بوجھ میں اضافہ یقینی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس تشویشناک صورتحال کو روکنے کیلئے خیبرپختونخوا کابینہ نے ”پنشن اصلاحات“ نامی ایک حکمت ِعملی کی منظوری دی ہے جس کے بارے میں ذرائع ابلاغ میں بہت کم بات چیت ہو رہی ہے۔ مذکورہ حکمت ِعملی کے تحت کم از کم رضاکارانہ ریٹائرمنٹ کی عمر 55سال تک بڑھانے سمیت قلیل مدتی اور طویل مدتی اقدامات نافذ کرنے والے متعلقہ قوانین میں ترمیم کی جا رہی ہے جس کے نتیجے میں سالانہ بارہ ارب روپے بچت کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ اسی مناسبت سے صوبائی اسمبلی نے پنشن سے فائدہ اٹھانے والوں کو براہ راست زیر کفالت افراد تک پہنچانے کے لئے ”خیبر پختونخوا سول سرونٹس پنشن رولز 2021ء“ نامی قانون کی بھی منظوری دی ہے جس کے تحت ہر مستفید شخص کو صرف ایک پنشن حاصل کرنے تک محدود کر دیا جائیگا صوبائی فیصلہ سازوں کی جانب سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ ”فیملی پنشن قوانین میں مذکورہ تبدیلیوں اور دوہرے پنشنرز پر پابندیوں سے حکومت کو آنے والے دس برس میں (ایک اندازے کے مطابق) 12ارب روپے کی بچت ہوگی اور اس کے ساتھ ساتھ مستفید ہونے والے کے مراتب اور پنشنر کے اخراج بمقابلہ آمدنی کے تناسب کو قابل برداشت و ہموار کیا جائے گا۔ مزید برآں‘ مستفید ہونے والوں کو پنشنر کی بیوہ‘ منحصر بچوں اور والدین تک محدود کرنے سے سالانہ ایک ارب روپے کی بچت کا فوری فائدہ بچت کی صورت حاصل ہوگا۔
اس کے علاوہ صوبائی اسمبلی نے خیبر پختونخوا سول سرونٹس ایکٹ میں بھی ترمیم منظور دی ہے جس کے تحت نئے ملازمین کو موجودہ ملازمین کے ساتھ مستقبل میں بھرتی ہونے والے افراد کیلئے ریٹائرمنٹ کے فوائد مختلف شکل میں دیئے جائیں گے جو عالمی معیار کے مطابق ہے اور اِسے ”کنٹریبیوٹری پروویڈنٹ فنڈ“ کہا جاتا ہے۔ بجٹ دستاویز میں تسلیم کیا گیا ہے کہ پنشن کی ادائیگیوں کیلئے پنشن فنڈ کے استعمال کا موجودہ طریقہ کار ’بے سود (خرابیوں کا مجموعہ)‘ ہے کیونکہ موجودہ وقت میں پنشن بل ہر سال قریب 22 فیصد کی شرح سے بڑھ رہا ہے جو کہ پنشن فنڈ کی نمو کی شرح سے دوگنا ہے جو 10فیصد ہے۔اس شرح پر پنشن فنڈ کو واجبات کی ادائیگی کیلئے تقریبا ایک کھرب (ٹریلین) روپے درکار ہوں گے نتیجتاً حکومت نے پنشن فنڈ کے سالانہ منافع کو سالانہ پنشن بل کا ایک حصہ ادا کرنے کیلئے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مذکورہ اصلاحات کی حکمت ِعملی کی وضاحت کرتے ہوئے بجٹ دستاویز میں کہا گیا ہے کہ ”حکومت نے تمام نئے سرکاری ملازمین کیلئے شراکتی پروویڈنٹ فنڈ کے رول آؤٹ کیلئے سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے تعاون سے ایک فریم ورک تیار کیا ہے۔ نئے کنٹریبیوٹری پنشن ماڈل میں ترقی یافتہ ممالک میں بین الاقوامی پنشن نظام میں رائج تمام خصوصیات کے ساتھ شریعت کے مطابق فنڈ کے آپشن کے ساتھ مقامی اصولوں اور تقاضوں کے مطابق بنایا جائے گا۔ خیبرپختونخوا میں مالیاتی نظم و ضبط اور معاشی مشکلات کے جاری دور میں غیرترقیاتی اخراجات پر قابو پانے کی گرانقدر کوشش میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن سے متعلق اصلاحات انتہائی اہم ہیں‘ جنہیں صرف آج کی تاریخ اور موجودہ حالات کے تناظر ہی میں نہیں بلکہ مستقبل میں پیش آنے والی مشکلات کے حل کے طور پر بھی دیکھا اور سمجھنا چاہئے۔