صوبائی دارالحکومت پشاور کی ضلعی انتظامیہ نے ’نانبائی ایسوسی ایشن‘ کی ایک روزہ ہڑتال (پندرہ جون دوہزاربائیس) کے مکمل ہونے سے قبل فی روٹی کی قیمت میں 5 روپے اضافہ کرنے کا مطالبہ تسلیم کرتے ہوئے ’نیا نرخنامہ‘ جاری کیا ہے۔ اشیاء کی قیمتیں اعتدال پر رکھنے‘ ناجائز منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی روکنے سے متعلق قانون ”پرائس کنٹرول اینڈ پریونشن آف پرافٹیرنگ اینڈ ہورڈنگ ایکٹ 1977ء“ کی روشنی میں جاری کردہ اعلامیہ (نوٹیفیکشن) کے مطابق ”ڈسٹرکٹ پرائس ریویو کمیٹی کی سفارش پر روٹی کی نئی قیمت مقرر کی گئی ہے اور اب ضلع پشاور میں ”135 گرام روٹی“ کی قیمت 15 روپے میں فروخت ہوگی‘ چونکہ135گرام کی روٹی وزن میں ہلکی ہوتی ہے اِس لئے نانبائی ”ڈبل“ کے نام سے 250 سے 270 گرام روٹی کی فروخت کریں گے جبکہ ہڑتال سے قبل بھی یہی کاروباری حکمت عملی شہر کے مختلف حصوں میں جاری تھی۔یہ پہلا موقع نہیں بلکہ اِس سے قبل ضلع پشاور کے نانبائیوں کی جانب سے ازخود اضافہ بھی دیکھنے میں آ چکا ہے اور اصل بات یہ ہے کہ ہر چند مہینوں بعد جس روٹی کے وزن اور قیمت پر اتفاق کیا جاتا ہے اُس میں ساری توجہ قیمت کے اشاریئے ہی پر مرکوز ہوتی ہے اور شاید ہی کوئی تندور ایسا ہو کہ جہاں روٹی ضلعی انتظامیہ کے مقررہ وزن کے مطابق فروخت کی جاتی ہو۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ تندروں پر اِن کی آمدنی کے لحاظ سے ہر قسم کی جدید سہولیات استعمال کی جاتی ہیں جیسا کہ پنکھے‘ ایگزاسٹ فین‘ ٹیلی ویژن‘ آٹا گوندھنے کی مشین وغیرہ لیکن نہ جانے کیوں ترازو کی بجائے ہاتھ میں پکڑا ہوا ’ترازو‘ آج بھی رائج ہے اور شہر کے طول و عرض میں ہر نانبائی اِس روایت کو بہت عزیز رکھے ہوئے ہے؟۔صارفین کے حقوق کا محفوظ کون ہے؟ پندرہ جون‘ پشاور میں موسمیاتی درجہئ حرارت کے لحاظ سے گرم ترین دنوں میں سے ایک تھا۔ اِس دن ”44 ڈگری سنٹی گریڈ“ گرمی ”50 ڈگری سنٹی گریڈ“ محسوس ہو رہی تھی جبکہ روٹی کی تلاش میں وہ صارفین در بہ در کی ٹھوکریں کھا رہے تھے جو واٹس ایپ گروپس‘ سوشل میڈیا یا اخبارات جیسے معلومات تک رسائی کے وسائل سے منسلک نہیں۔ اگر ضلعی انتظامیہ کے مذکورہ ٹوئیٹر اکاؤنٹ سے ’14 جون رات 8 بج کر 23 منٹ‘ پر یہ اعلان جاری ہو سکتا ہے کہ ”ڈاکٹر کے نسخے کے بغیر ادویات کی فروخت نہ کی جائے۔ اِس اعلان میں نشہ آور ادویات کی فروخت پر عائد پابندی سے متعلق یاد دہانی بھی شامل کی گئی اور خلاف ورزی کی صورت سخت قانونی کاروائی کے عزم کا اظہار بھی کیا گیا تو اسی طرح نانبائیوں کی ہڑتال‘ اِس ہڑتال کو ختم کرنے کے اعلان اور روٹی کی قیمت بڑھانے کے فیصلے سے بھی صارفین کو آگاہ کیا جانا چاہئے تھا۔
بلدیاتی نمائندے کہاں ہیں؟ نانبائی ایسوسی ایشن کا مؤقف ہے کہ سال2018ء سے 115 گرام وزن کی روٹی کی قیمت 10 روپے مقرر ہے جبکہ اُس وقت 85 کلوگرام گندم کے آٹے کی بوری 3600 روپے میں فروخت ہوتی تھی اور اب وہی 85 کلوگرام آٹے کی بوری 7300 روپے یعنی دوگنا سے بھی زیادہ قیمت میں خریدی جا رہی ہے جبکہ مذکورہ عرصے (سال دوہزاراٹھارہ کے بعد سے) بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بھی دوگنا سے زائد اضافہ ہو چکا ہے اور یہی صورتحال دیگر پیداواری ضروریات (اخراجات) اور مزدوروں کی اُجرت میں اضافے کی بھی ہے۔ اِن سبھی محرکات کی وجہ سے نانبائیوں کیلئے اب عملاً ناممکن (مشکل) ہو گیا ہے کہ وہ روٹی کی فروخت پرانی قیمت پر جاری رکھیں۔“ جب ضلع پشاور کے نانبائی ایسوسی ایشن صدر سے صارفین کی مشکلات کے بارے سوال کیا گیا تو اُنہوں نے کہا کہ ”ہڑتال اچانک نہیں کی گئی بلکہ ایک ہفتہ قبل ’احتجاجی مظاہرہ‘ کے بعد ہڑتال کی تاریخ کا اعلان کر دیا گیا تھا جسے ضلعی انتظامیہ سمیت کسی بھی حکومتی ادارے نے خاطرخواہ توجہ نہیں دی۔ اگر اُس وقت نانبائی ایسوسی ایشن کے مؤقف کو دردمندی سے سن لیا جاتا اور بعد میں کئے جانے والے مذاکرات پہلے ہی کر لئے جاتے تو نانبائی ہڑتال کی نوبت نہ آتی‘ لہٰذا یہ کہنا کہ صارفین کی مشکلات کیلئے نانبائی ذمہ دار ہیں سوفیصد درست رائے نہیں۔تندور بند ہونے سے سب سے زیادہ ’پشاور سٹی تحصیل‘ کی حدود میں رہنے والے صارفین متاثر ہوتے ہیں کیونکہ یہ گنجان آباد اندرون شہر اور اِس سے متصل 9 دیہات اور 121 نیبرہڈ کونسلوں پر مشتمل ہے اور یہاں سے 194 بلدیاتی نمائندے جن میں 43 خواتین بھی شامل ہیں۔ لمحہئ فکریہ ہے کہ پشاور شہر کی نمائندگی کرنے والے منتخب بلدیاتی نمائندے نانبائیوں کی ہڑتال اور روٹی کی نئی قیمت مقرر کئے جانے کے عمل سے الگ ”خاموش تماشائی“ بنے ہوئے ہیں!
یہ اَمر بھی قابل ذکر ہے کہ نانبائیوں کی ہڑتال میں پشاور شہر کی 9 ویلیج کونسلوں اور 121 نیبرہڈ کونسلوں کے ساتھ بڈھ بیر تحصیل کی 37 ویلیج کونسلوں‘ چمکنی تحصیل کی 42 ویلیج اور 4 نیبرہڈ کونسلوں‘ شاہ عالم تحصیل کی 41 ویلیج اور 2 نیبرہڈ کونسلوں‘ پشتخرہ تحصیل کی 34 ویلیج اور 2 نیبرہڈ کونسلوں‘ متھرا تحصیل کی 53 ویلیج اور 1 نیبرہڈ کونسل‘ متھرا تحصیل کی 53 ویلیج اور ایک نیبرہڈ کونسل جبکہ حسن خیل تحصیل کی 11 ویلیج کونسلوں سے بلدیاتی نمائندوں پر مشتمل ضلعی حکومت بھی موجود ہے لیکن فیصلے ضلعی انتظامیہ کے سپرد ہیں۔ اقتدار اور اختیارات کی اِس غلط تقسیم کو درست کرنا اِس مقصد (غرض) سے بھی ضروری ہے کہ جب تک بلدیاتی نمائندوں کو کماحقہ (مالی و انتظامی طور پر) بااختیار اور (ہر سطح پر ہونے والی) فیصلہ سازی کے عمل میں شامل (شریک سفر) نہیں کیا جائے گا اُس وقت کسی بھی مسئلہ کا وقتی حل عوام کی تسلی و تشفی کا باعث نہیں بنے گا اور نہ ہی اِس قسم کی فیصلہ سازی پائیدار ثابت ہوگی۔گھر کی روٹی کیوں نہیں؟
اہل پشاور کی روایت رہی ہے کہ یہاں کے اکثر گھروں میں روٹی پکائی جاتی تھی اور بازار سے پکی پکائی روٹی کسی اچانک مہمان یا اضافی (خاص) ضرورت کی صورت‘ بہ امر مجبوری خریدی جاتی تھی لیکن اب شہری و دیہی علاقوں کی صورتحال ایک جیسی ہے۔ گھریلو روٹی پر کم ہوتے انحصار کی ایک وجہ ’گیس کی لوڈشیڈنگ‘ بھی ہے۔وقت ہے کہ شہر اور دیہی علاقوں کے اہل پشاور اپنے ماضی کی روایات کو پھر سے زندہ کرتے ہوئے گھر ہی میں صاف ستھری باسہولت روٹی پکائیں جس کیلئے گیس تندور اور اِس سے بھی کم خرچ اُلٹ پلٹ فرائی پان (توے) ریتی بازار یا کسی بھی قریبی ہارڈوئر مارکیٹ سے خریدے جا سکتے ہیں۔