آتی جاتی ہے جا بہ جا بدلی

گرد و پیش کے حالات کیسے بھی ناگفتہ بہ ہو جائیں موسم ان سے بے نیاز ہو تا ہے،یہ گرمی کے دن ہیں اور یار لوگ ذہنی طور پراس کے لئے تیار ہیں اگر چہ عالمی سطح پر موسم کی من مانیاں یہاں وہاں حیرانیاں پھیلا رہی ہیں، لیکن جن علاقوں میں موسم گرما اپنی پوری شدّت کے ساتھ پڑاؤ ڈالتا ہے،وہاں کے رہنے والے اس کے عادی ہو چکے ہوتے ہیں، اگر کوئی کسی وقت گرمی یا حدت کی شکایت بر سبیل تذکرہ بھی کردے تو اسے فوراً یہ کہہ کر ٹوک دیا جاتا ہے کہ اب جون کے مہینے میں آپ کے لئے اولے تو نہیں پڑ سکتے، لیکن میں نے کہا نا اب موسم نے بھی ہماری خو خصلت اختیار کر لی ہے،جیسے اب کے جیٹھ کے آخری پندرواڑہ میں ٹھیک شام کے چار بجے گرد و غبار کا طوفان آجاتا تھا کبھی کبھار کوئی چھینٹا بھی پڑ جاتا تھا، دن بھر دھوپ کے جھلسے ہوؤں کو قدرے سکون مل جاتا کبھی کبھی یہ آندھیاں لو کی صورت میں بھی سارے ملک میں پھرتی رہیں مگر دن کے پہلے حصے کی حدت کے لئے یہ بھی غنیمت تھا، جوش ملیح آبادی نے درست کہا ہے کہ
 اب بوئے گل نہ باد ِ صبا مانگتے ہیں لوگ
 وہ حبس ہے کہ لو کی دعا مانگتے ہیں لوگ
اسی طرح جون کے مہینے کا آخری عشرہ گاہے گاہے بوندا باندی ہی سہی بارش کو ساتھ لاتا رہا لیکن شبقدر کے رہائشی میرے پڑوسی مسعوداخترنے گزشتہ کل مجھے یہ کہہ کر حیران کر دیا کہ ہمارے گاؤں میں شدید بارش ہوئی اور ساتھ ہی اولے بھی پڑے، گویا وہ جو ہم گرمی کی شکایت کرنے والوں کو استہزائیہ انداز میں کہا کرتے تھے کہ ”کہ اب جون کے مہینے میں آپ کے لئے اولے تو نہیں پڑ سکتے“ سو اب نہیں کہہ سکیں گے کیونکہ اب احتیاط کی ضرورت ہے،کبھی بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے کون جانتا ہے کہ کب موسم کیا روپ اختیار کر کے آپ کو حیران کردے  اور ان حدتوں کے دنوں میں جب پہاڑوں پر پڑی برف پگھل کر دریاؤں کو لبریز کر رہی ہے اور کتنے ہی بڑے گلیشئرز کا حجم کم ہو رہا ہے ایسے میں سکردو کے ایک گاؤں کے نوجوانوں نے مصنوعی گلیشئربنانے کا کامیاب تجربہ کر لیا ہے‘مصنوعی بارش کی حیرانی ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ اب مصنوعی گلیشئر کا کامیاب تجربہ‘ جانے اور کیا کیا دیکھنا ہے ”محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی“ 
کل فراز نے بھی اپنے شعر میں موسم کی اس ادا کے حوالے سے کہا ہے
 یوں ہی موسم کی ادا دیکھ کے یاد آیا ہے
 کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انساں جاناں 
 چلئے شاعری تو واہموں کی دلدادہ ہو تی ہے مگر موسم کی من مانیوں سے پیدا ہونے والی حیرانیاں جو نت نئے منظر دکھا تی ہیں، وہ منظر بھی یار لوگوں کو واہموں کی اور کھینچ رہے ہوتے ہیں،میرے ایک دوست اور سٹوڈنٹ حاجی احسان اللہ خان دو دن پہلے گھر آئے تھے اور کہہ رہے تھے کہ بعض مستند لوگوں سے سنا ہے کہ یہ جو ہر شام کو آندھیاں آ جاتی ہیں یہ کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہیں، میں نے
 کہا کہ پورا گلوب اس وقت موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہے یہ اسی کا حصہ ہے کہنے لگے وہ تو ٹھیک ہے مگر آپ نے شاید نوٹ نہیں کیا کہ ہر شام آندھی ٹھیک چار بجے آتی ہے اس سے پہلے دور دور تک کوئی آثار نظر نہیں آتے، میں کیا کہتا چپ رہا میرا خیال تھا کہ جیٹھ جونہی رخت سفر باندھ لے گا سب نارمل ہو جائے گا مگر اب جب کہ ہاڑھ کا پہلا ہفتہ چل رہا ہے،آندھیوں کے ٹائم ٹیبل میں کوئی تبدیلی نہیں آئی،ہر چند مزاج کے لحاظ سے جیٹھ اور ہاڑھ کے دونوں مہینے آتش مزاج ہیں اور دونوں جب مہرباں ہوں تو یہاں وہاں چھینٹا بھی پڑ جاتا ہے، یہ دونوں مہینے سال کے باقی دس مہینوں کے بر عکس 32 دنوں کے ہوتے ہیں، سال کا بڑا دن بھی ہاڑھ ہی میں آ تا ہے، مگر یہ آندھیوں کا اس طرح کا تسلسل کم کم اس نوعیت کا ہوا کرتا ہے، پھر ابھی ساون بھادوں کے آنے اور چھانے میں پورا مہینہ پڑا ہوا ہے اور مون سون بھی ابھی راہ میں ہے مگر ہاڑھ کے موسم میں بارشوں کی نوید سنا دی گئی
 ہے، کل مجھے شام چار بجے گاؤں جانا تھا موسم کی حدت خاصی خبر لینے پر تلی ہوئی تھی مگر جانا ناگزیر تھا، سو رخت سفر باندھا اور جونہی ”برون شہر“ پہنچے پہلے تیز ہواؤں نے آن لیا پھر گرد و غبار کے جھکڑ چلنے لگے اور وقت وہی چار بجے کا تھا، گاؤں پہنچتے پہنچتے ہواؤں میں شدت آتی گئی اور دن کی ساری گرمی لمحوں میں اڑنچھو ہو گئی، آخر  کو ہوا کی رفتارمیں کمی آئی اور ہلکی سی خنکی پیدا ہو گئی، سورج بھی اب ڈھلنے والا تھا اور موسم اچانک ہی بہت مہربان ہو گیا تھا زیادہ لطف اس بات کا آیا کہ میرے وٹس ایپ اکاؤنٹ پر میرے ہم خیال دوست اور میری مزاج آشنا کچھ سٹوڈنٹس نے مجھے اپنے اپنے علاقے کے حصے کے آسمان کی تصاویر بھیجنا شروع کر دیں،جن پر کالی گھٹاؤں کا بسیرا تھا، مغرب کی نماز راستے ہی میں پڑھی اور جب شام ڈھلے گاؤں پہنچا تو بجلی نہیں تھی مگر مجال ہے جو کسی ماتھے پر کوئی ناراضی یا شکایت کی شکن ابھری ہو کیونکہ ٹھنڈی ہوائیں بدستور چہروں کے تناؤ ختم کر نے پر ما مور تھیں  اور چائے کے ایک کپ نے تو بالکل ہی تازہ دم کر دیا تھا، چارپائیاں اور کرسیاں صحن میں لگا دی گئی تھیں اور پھر مجھے ایک زمانے کے بعد تاروں کی چھاؤں تلے منڈلی جمانے کا موقع ملا، ایسی کتنی راتیں دیر تک لڑکپن کے دنوں میں اپنے حجرے کی چھت پر یار بیلیوں کے سنگ گزاری تھیں، وہ مہربان بزرگ چہرے بھی یاد آئے جو ہمیں یاد دلاتے کہ بہت دیر ہوگئی اب گھر جا کر سو جائیں، آہ! آج ان میں سے کوئی بھی نہیں تھا سو دیر تک باتیں چلتی گئیں مگر پشاور واپسی بھی لازمی تھی سو گفتگو کو ایک خاص موڑ پر روک کرواپسی کا ارادہ باندھا،پشاور پہنچتے پہنچتے صبح کے تین بج چکے تھے، پھر کیا سونا کیا جاگنا، لیکن موسم کی مہربانی فجر تک برقرار رہی، میں نے کہا نا کہ ”گرد و پیش کے حالات کیسے بھی ناگفتہ بہ ہو جائیں موسم ان سے بے نیاز ہو تا ہے، لیکن اگر خوش قسمتی سے موسم کی بے نیاز ی اگر ایسی ہو جیسی گزشتہ شام تھی توکبھی کبھی کے خشک ساون بھادوں سے یہ کالی گھنگھور گھٹاؤں والا ہاڑھ بہت غنیمت ہے جس کی بدلیوں نے ہاڑھ کے آتش مزاج موسم میں بھی آسمان پر میلے لگا دئیے تھے‘ ناسخ نے کہا ہے 
 آتی جاتی ہے جا بہ جا بدلی
 ساقیا جلد آ ہو ا بدلی