حج اخراجات‘ محرکات

 سال کے قریب مہینے پہنچ رہے ہیں اور ایمان و یقین کے سفر پر مسافر چل نکلے ہیں یا سفر کی تیاری میں مصروف ہیں۔ ذی الحجہ قریب ہے اور حج پروازوں کا سلسلہ پوری تیاریوں سے جاری ہے  ’حج پروازوں‘ کا سلسلہ ’13 اگست تک جاری رہیگا‘ جسکی خاص بات یہ ہے کہ گزشتہ کئی برسوں کی طرح اِس باربھی عازمین حج کی اکثریت سرکاری انتظامات سے استفادہ نہیں کر رہی اگرچہ نجی اداروں کی نسبت حکومت کے وسائل اور اختیارات زیادہ ہوتے ہیں لیکن عازمین کی اکثریت بمشکل ادائیگیاں کر کے اپنے سفر کو یقینی باسہولت بنانے کو ترجیح دیتی ہے‘ لمحہئ فکریہ ہے کہ سعودی عرب میں پاکستان کے سفارتخانوں کے علاؤہ حج و عمرے کیلئے آنیوالوں کے قیام و طعام اور رہنمائی جیسی سہولیات کا الگ سے خصوصی طور پر‘ اہتمام کیا جاتا ہے‘لیکن اِسکے باوجود بالخصوص حج کے موقع پر حکومتی ادارے عوام کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے تو اِس بارے میں سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے اِس سے قومی خزانے کو فائدہ جبکہ حکومتی ادارے کی کارکردگی پر عوام کا اعتماد بحال ہو‘وزارت ِمذہبی امور نے 23 مئی 2022ء کے روز ”حج پالیسی“ کا اعلان کیا تھا جسکے مطابق رواں سال کیلئے فی کس حج کی قیمت 8 لاکھ 50 ہزار روپے مقرر کی گئی‘ذہن نشین رہے کہ گزشتہ برس فی کس حج اخراجات 4 لاکھ 35 ہزار روپے تھے؛حج کی قیمت میں اچانک اِس قدر اضافہ کیوں ہوا؟ سعودی عرب میں تعینات پاکستان کے ’ڈائریکٹر جنرل حج‘ ابرار مرزا نے اِس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ”اِس سال حج کی قیمت میں اضافہ 3 محرکات کی بنا پر ہوا ہے‘ پہلا محرک ’کورونا وباء‘ کے بعد پہلی مرتبہ حج کرنیکی اجازت بنا پابندیوں کے دی گئی‘لیکن  عازمین کی تعداد کم رکھی گئی‘جسکی وجہ سے حج کے بندوبست پر اُٹھنے والے اوسط اخراجات حاجیوں کی کم تعداد پر تقسیم کر دیئے گئے‘گزشتہ برس تقریباً 3 ہزار ریال (ایک لاکھ چھبیس ہزار پاکستانی روپے) فی حاجی فیس وصول کئے جاتے تھے جسے سعودی حکومت نے بڑھا کر 7 ہزار 500 ریال (چار لاکھ پندرہ ہزار پاکستانی روپے سے زائد) کر دیا ہے؛اِس طرح حج کی قیمت میں اضافے کا پہلا محرک سعودی عرب کی جانب سے فی حاجی وصول ہونیوالی فیس ہے‘دوسرا محرک پاکستانی روپے اور سعودی ریال کے درمیان شرح تبادلہ کا فرق ہے‘گزشتہ برس یہ فرق فی ریال 39 فیصد تھا جو بڑھ کر 56 فیصد ہو چکا ہے‘کرنسی ایکس چینج ریٹ کے علاؤہ روس یوکرائن جنگ کی وجہ سے ’سپلائی چین‘ بھی متاثر ہے‘تیسرا محرک سعودی عرب میں متعارف کی گئی ٹیکس اصلاحات ہیں؛ قبل ازیں سعودی عرب ’ٹیکس فری‘ ملک ہوا کرتا تھا لیکن اب وہاں کی مقامی پیداوار و خدمات پر کم سے کم 15 فیصد جبکہ درآمدی اشیاء و اجناس پر کم سے کم 24 فیصد ڈیوٹی عائد کر دی گئی ہے‘ ڈائریکٹر جنرل حج کے مطابق ”پاکستان کی جانب سے سرکاری حج کی مقرر کردہ قیمت دیگر ممالک کے مقابلے میں اب بھی کم یا مساوی ہے‘ اُنہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ”اِس سال سرکاری اسکیم کے تحت حج کرنیوالوں کی سہولیات کے زیادہ بہتر اقدامات کئے گئے ہیں جن میں شکایات درج کرانے کیلئے ’ٹول فری‘ فون نمبر اور ہر رہائشی سہولت کیلئے الگ الگ منتظمین مقرر کئے گئے ہیں‘سعودی عرب حکومت کی جانب سے 25 لاکھ لوگوں کے بیک وقت حج کرنیکی سہولیات کا بندوبست کیا گیا ہے تاہم اِس سال (کورونا وباء کی وجہ سے احتیاطی تدبیر کے طور پر) پوری دنیا سے 10 لاکھ لوگوں کو حج کرنیکی اجازت دی گئی ہے اور اِس صورتحال میں جبکہ ہوٹلوں میں قیام و طعام کی سہولیات پر زیادہ بوجھ نہیں ہے تو سرکاری حج کرنیوالوں کیلئے اکثر 3 سٹار اور 5 سٹار ہوٹلوں میں قیام و طعام کا بندوبست کیا گیا ہے“ بقول ڈائریکٹر حج‘ سرکاری حج اسکیم سے استفادہ کرنے والوں کی اکثریت کا تعلق متوسط طبقے سے ہوتا ہے جو اِس سے قبل بیرون ملک اجتماعی عبادت میں شرکت کا تجربہ نہیں رکھتے اور نہ ہی شدید موسم اور مختلف اقسام کے کھانوں (ذائقوں) سے مانوس ہوتے ہیں۔ اِس لئے حج کے دوران کھانے پینے سے متعلق پاکستانیوں کی زیادہ شکایات سننے میں آتی ہیں یا اُن کی قیمتی اشیاء گم ہونے کی اطلاعات ملتی ہیں۔ ایسے اور دیگر بہت سے مسائل سے نمٹنے کیلئے اِس سال سرکاری حج اسکیم والوں کیلئے مفت فون کالز کے ذریعے شکایات کے اندراج اور پاکستان کے مقامی کھانوں کے انتظامات کئے گئے ہیں۔