وطن عزیز میں بہت سے معاملا ت پرجمود طاری رہتاہے لگتاہے کہ ہم تبدیلی اور پیشرفت سے کنی کترانے میں ماہر ہوتے جارہے ہیں اقبال فرماگئے تھے۔
آئین نو سے ڈرنا طرزکہن پراڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
ہم بھی ہرشعبہ میں اسی طرح طرز کہن پر اڑنے کے ماہر بن چکے ہیں ہمارے ہاں یہ صورت حال ہر شعبہ زندگی میں دکھائی دیتی ہے جہاں تک ہمارے تعلیمی نظام اور طلبہ کاتعلق ہے تو صورت حال کچھ زیادہ حوصلہ افزاء نہیں کیونکہ ہمارے طلبہ بھیڑ چال کاشکار رہتے ہیں جس سمت میں سیل رواں گامزن ہوتاہے اسی سمت کو سب چل پڑتے ہیں یہی حال کیریئر کی منصوبہ بندی کے معاملہ میں بھی ہے اگر دیکھاجائے تو طلبہ کیلئے کریئر کی منصوبہ بندی اب کوئی نیا موضوع نہیں رہ گیا ہے دسویں جماعت تک پہنچتے پہنچتے طلبہ کی سماعتوں تک یہ الفاظ پہنچ چکے ہوتے ہیں، وہ اس کا معنی بھی جان لیتے ہیں اور اپنا ذہن بھی بنانے لگتے ہیں مگر، اکثر دیکھا گیا ہے کہ وہ انہی کورسزمیں سے کسی ایک کے بارے میں خود کو مجتمع کرتے ہیں جن کے بارے میں اْنہوں نے سن رکھا ہوتا ہے۔ عام روش یہ ہے کہ لڑکے انجینئرنگ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کو اپناتے ہیں جبکہ لڑکیاں میڈیکل کو ترجیح دیتی ہیں‘ یہ غالب رجحان ہے‘ بعض طلبہ یقیناً ان کے علاوہ بھی سوچتے ہیں مگر زیادہ تر کے سوچنے اور فیصلہ کرنے کا ڈھنگ وہی ہے جو بیان کیا گیا۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اْن کے سامنے کیریئر کے بے شمار میدانوں کا پورا نقشہ نہیں ہوتا‘اس لئے کیریئر منتخب کرنے سے پہلے ہر طرح کے کورسزکی معلومات حاصل کرنا ازحد ضروری ہے تاکہ طلبہ کے سامنے وہ وسیع کائنات کھلی رہے جس پر غوروخوض کرنے کے بعد ہی کوئی فیصلہ درست فیصلہ قرار پاسکتا ہے دورِ حاضر میں علم کے ہزار شعبے موجود ہیں۔ اگر کوئی طالب علم ان ڈھیر سارے شعبوں سے باخبر ہوئے بغیر محض چند ایک کورسزمیں سے کسی ایک کا انتخاب کرلیتا ہے تو یہ
مناسب طرز عمل نہیں ہے کیونکہ اکثر اوقات، ایسا انتخاب اس کی پسند ناپسند یا مزاج سے زیادہ اس ماحول کی دین ہوتا ہے جس میں طالب علم سانس لے رہا ہوتا ہے۔ یہ ماحول کیا ہے؟ کلاس کے ساتھی طلبہ کی پسند ناپسند، گھروں میں ہونے والی بحثوں میں زیر تذکرہ آنے والے کورسز، دور نزدیک کے بہن بھائیوں کی ترجیحات، والدین کی خواہش اور محدود معلومات۔ اکثر گھروں کا ماحول انہی سب سے مل کر بنتا ہے۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ اس میں کیریئر کے بیشتر شعبہ جات کا کوئی تصور نہیں ہے۔ اسی لئے ہم نے کہا کہ کیریئر کی منصوبہ بندی سے پہلے واضح اور جامع معلومات کا حاصل کرنا اور پھر کیریئر کے تمام متبادلات کو سامنے رکھ کر فیصلہ کرنا ہی طالب علم کیلئے بہتری کا سبب بن سکتا ہے تاکہ وہ نہ ہو جو بہت سے طلبہ کے ساتھ ہوتا ہے کہ جس فیلڈ میں داخلہ لیا، وہاں یا تو دل نہیں لگا، یا فیس اسٹرکچر بہت زیادہ تھا، یا وہ شعبہ (جس میں داخلہ لیا تھا) بہت مشکل لگا جس کے نتیجے میں طالب علم انتشارِ ذہنی کا شکار ہوا اور اس نے یا تو فیلڈ تبدیل کرلی یا اپنی تعلیم بے دلی کے ساتھ جاری رکھی۔ طلبہ کو اور والدین کو ذہن نشین رکھنا چاہئے کہ خاطرخواہ واقفیت اور معلومات کے بغیرچلنا خود کو گمراہی سے دوچار کرنے کے مترادف ہے۔ ایسے طلبہ منزل تک پہنچنے میں یا تو ناکام ہوتے ہیں یا کسی بھی راہ کے ذریعہ کسی بھی منزل تک پہنچ کر اکتفا کرلیتے ہیں۔ یہ بات اب سے بیس سال پہلے
جتنی درست تھی اب اس سے کئی گنا زیادہ درست ثابت ہورہی ہے کیونکہ اب کیریئر کے متبادلات میں درجنوں بالکل نئے اور جدید شعبوں (مثلاً مصنوعی ذہانت اور روبوٹکس) کا اضافہ ہوچکا ہے اگر ایک طالب علم خواہ وہ لڑکا ہو یا لڑکی، مصنوعی ذہانت، اس کی مانگ، اس میں کیریئر کے فوائد اور بے شمار امکانات سے واقف نہیں ہے بلکہ بندھے ٹکے طریقے سے میڈیکل یا مینجمنٹ میں داخلہ لے لیتا ہے تو وہ کامیاب تو ہوجائیگا مگر یہ بھی ممکن ہے کہ اگر اس نے مصنوعی ذہانت کا رْخ کیا ہوتا تو کامیابی کے امکانات بے پناہ ہوجاتے؟ یہ ہے کیریئر کی منصوبہ بندی سے پہلے وسیع معلومات حاصل کرنے کی اہمیت اور غرض و غایت۔ کیا اس طرف ہماری توجہ ہے؟ بالکل بھی نہیں‘یونیورسٹی تک پہنچ جانے والے بہت سے نوجوانوں کے ذہن بھی اس حوالہ سے کورے رہتے ہیں کالج سے یونیورسٹی کارخ کرنے کے موقع پربہت کچھ سوچنے سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے ہمارے جیسے ملک میں کہ جہاں کم تعلیمی شرح کی وجہ سے مستقبل کے شعبہ جات کاتعین بہت مشکل ہوتاہے اورجیساکہ بتایاگیاکہ اکثر اوقات طلبہ محض گھروالوں کی پسند کی خاطر کوئی شعبہ چن لیتے ہیں مگر پھر اس میں آگے بڑھنا ان کے لئے ممکن نہیں ہوتا جس کی وجہ سے قیمتی وقت اور سرمایہ دونوں ضائع ہوتے ہیں‘کیریئر کی منصوبہ بند ی کے حوالہ سے مشاورت کارجحان نہ ہونے کے برابر ہے اوریہی سب سے بڑا مسئلہ ہے اعلیٰ تعلیمی ا داروں میں داخلہ لیتے وقت اکثر طلبہ کے ذہن بالکل خالی ہوتے ہیں اور انہیں بہت سے شعبہ جات کے حوالہ سے کوئی معلومات ہوتی ہیں نہ ہی ان کی اہمیت سے آگہی ہوتی ہے اس لئے بعض اوقات ان سے بہت ہی غلط فیصلے ہوجاتے ہیں کیاہی بہتر ہوکہ کالج یاسکول کی سطح پراس حوالہ سے کوئی ایک پیریڈ مختص کرکے اساتذہ اپنے طلبہ کے ذہنی رجحانات کاانداز ہ لگا کران کے کیریئر کی منصوبہ بندی شروع کریں اس سے ہزاروں طلبہ کاقیمتی وقت ضائع ہونے سے بچایاجاسکے گا۔