آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا جبکہ دنیا کے اِس پانچویں بڑے شہر ’کراچی‘ کے مسائل بھی آبادی ہی کے تناسب سے ’بڑے‘ ہیں! جہاں کچھ بھی منظم نہیں اور کچھ بھی مثالی شکل و صورت میں دکھائی نہیں دیتا۔ انتظامی طور پر کراچی کو 6 اضلاع (ملیر‘ کورنگی‘ کراچی شرقی‘ کراچی غربی‘ کراچی شمالی‘ کراچی جنوبی اور کراچی مرکزی) میں تقسیم کیا گیا ہے جہاں سے صوبائی اسمبلی کی 44 اور قومی اسمبلی کی مجموعی 21 نشستوں میں شامل ’این اے 240 کورنگی ٹو‘ جو کہ صوبائی اسمبلی کی دو نشستوں (پی ایس95 اور پی ایس 96) کا مجموعہ ہے کے لئے ضمنی انتخاب ہوئے۔ رجسٹرڈ ووٹرز کی کل تعداد 5 لاکھ 29 ہزار 855 تھی اور تمام پولنگ مراکز کو ’حساس‘ قرار دیا گیا جبکہ ووٹنگ کی شرح 8.38 فیصد رہی اور الیکشن کمیشن قانون کے مطابق اگر کسی حلقے میں خواتین کے ڈالے گئے ووٹوں کی شرح 10فیصد سے کم ہو تو وہاں الیکشن کا پورا عمل دوبارہ کروایا جاتا ہے اور یہاں تو پورا انتخابی نتیجہ ہی دس فیصد سے کم سامنے آیا ہے۔
قومی اسمبلی کی یہ نشست رواں سال اپریل میں متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان) سے تعلق رکھنے والے (ایم این اے) اقبال علی خان کی وفات سے خالی ہوئی اور اِس انتخابی حلقے میں روایتی طور پر ’ایم کیو ایم‘ کی مضبوط گرفت ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے جاری کردہ غیر سرکاری نتائج کے مطابق ایم کیو ایم کے ابوبکر (10683 ووٹ لیکر) کامیاب جبکہ تحریک لبیک پاکستان کے شہزادہ شہباز (10561 ووٹ لیکر) دوسرے نمبر پر رہے یوں جیت کا فرق چند درجن ووٹ رہا اور یہی وجہ ہے کہ شکست خوردہ امیدوار نے فوراً انتخابی نتیجہ تسلیم نہ کرنے اور عدالت سے رجوع کرنے کا اعلان کر دیا۔
ذہن نشین رہے کہ تحریک انصاف کی نمائندگی کرنے والے اُمیدوار کے کاغذات نامزدگی تکنیکی اعتراض کی وجہ سے مسترد کئے گئے کیونکہ اُن کے ایک تجویز کنندہ کے دستخط پر اعتراض تھا‘دوسری اہم بات یہ رہی کہ ’سولہ جون‘ کو ہونے والے اِس ضمنی انتخاب کے موقع پر ہتھیاروں کی کھلم کھلا نمائش اور تشدد کے درجنوں واقعات رونما ہوئے‘ جس کی وجہ سے رائے دہندگان کی اکثریت نے اپنی جان اور عزت بچانے کے لئے پولنگ مراکز سے دور رہنے میں عافیت محسوس کی۔ الیکٹرانک ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا چینلز دن کے آغاز پر ہی خوف و ہراس سے متعلق خبردار کر رہے تھے تاہم تمام دن امن و امان کی خراب صورتحال اور مختلف پولنگ سٹیشنوں پر بدانتظامی کے واقعات سامنے آئے۔
انتخابی دن کے اختتام پذیر ہونے تک ’ایک شخص ہلاک اور ایک درجن سے زائد افراد زخمی‘ ہونے کی صورت بھی ایک نتیجہ سامنے آیا۔ بہرحال پاکستان میں انتخابات اور انتخابی سیاست کرنے والے دونوں ہی کا مزاج ’جارحانہ‘ ہوتا ہے جو اُمیدوار اور جو جماعتیں زیادہ جارحانہ روئیوں کا مظاہرہ کرتی ہیں۔
اُن کی کامیابی یقینی ہوتی ہے اور انتخابی سیاست کے اِس سادہ و آسان کلیے پر عمل درآمد کی وجہ سے انتخابات اپنے مقصد و افادیت سے الگ ہو چکے ہیں‘ اِس مرتبہ (ضمنی انتخاب میں) ٹرن آؤٹ کمی کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ انتخاب ایک ایسے حلقے میں ہوا‘ جہاں کے رہنے والوں کی اکثریت صنعتی مزدوروں پر مشتمل ہے اور انہوں نے اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کی بجائے کام کاج کو زیادہ اہمیت دی‘ جس سے معاشی بحران کی شدت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اب عوام کی ترجیحات سیاست سے روزگار کی جانب تبدیل ہو چکی ہیں۔کراچی کے ضمنی انتخابات کے دوران امن و امان کے چیلنجوں کا نوٹس لیتے ہوئے چیف الیکشن کمیشن سکندر سلطان راجہ نے سترہ جون کے روز سندھ کے چیف سیکرٹری اور صوبائی پولیس سربراہ کے علاوہ وزیراعلیٰ سندھ سے رسمی بات چیت کی اور اُنہیں یاد دلایا کہ عام انتخابات کے دوران امن و امان برقرار رکھنے کی ذمہ داری اُن کے دائرہ اختیار میں تھی۔
اگرچہ الیکشن قواعد میں نتائج روکنے اور ایسے پولنگ مراکز پر دوبارہ الیکشن کروانے کی گنجائش موجود ہے جہاں تشدد کیا گیا ہوجبکہ اُمید یہ تھی کل 309 پولنگ مراکز میں سے جن 203 پولنگ مراکز کو انتہائی حساس قرار دیا گیا تھا اُن کی سختی سے نگرانی کی جائے گی اور ”انتہائی حساس“ قرار دینے کا مقصد ہی یہ تھا کہ اِن پولنگ مراکز پر قانون نافذ کرنے والے ادارے زیادہ توجہ دیں جبکہ دوسری صورت میں الیکشن کمیشن کے پاس اختیار ہوتا ہے کہ وہ اِن پولنگ مراکز کے نتائج کا اعلان نہ کرے اور انتخابی نتیجہ جاری کرنے کی بجائے اُس وقت تک روکا جائے جب تک سازگار ماحول میں پولنگ کروانے میں تمام انتخابی امیدوار تعاون نہیں کرتے۔
این اے 240 کے ضمنی انتخابات کا قابل ذکر اور اہم نتیجہ یہ بھی ہے کہ تحریک لبیک پاکستان قومی اسمبلی میں اپنی جگہ بنانے کے بہت قریب پہنچنے میں کامیاب رہی اور یہ کامیابی قطعی طور پر غیرمعمولی ہے۔ کراچی میں تحریک لیبک پاکستان کا عروج بالخصوص لائق توجہ (حاصل مطالعہ) ہے اور اِس کی بنیادی وجہ شاید یہی ہے کہ ’لبیک‘ نے ضمنی انتخاب کی تاریخوں کا اعلان ہوتے ہی خواص کی بجائے عوام سے رابطے کئے اور نچلی سطح پر جاری خیراتی و فلاحی کاموں کو زیادہ تیز کر دیا۔ تحریک لبیک پہلے ہی سندھ اسمبلی کا حصہ ہے اور اگر یہ قومی اسمبلی میں اپنی جگہ بنانے کے کامیاب ہو جاتی ہے تو اِس سے سندھ کے علاوہ دیگر صوبوں میں تحریک لبیک کو فائدہ ہوگا۔