پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت دونوں ممالک کے درمیان ’راہداری معاہدے‘ کے تحت کی جاتی ہے چونکہ افغانستان کو سمندر تک رسائی نہیں‘ اِس لئے پاکستان یا دیگر ہمسایہ ممالک کی بندرگاہوں کے ذریعے افغان حکومت اور تاجر (نجی سرمایہ کار) درآمدات کرتے ہیں لیکن یہ عمل سوفیصدی قوانین و قواعد کے مطابق سرانجام نہیں دیا جا رہا ذہن نشین رہے کہ مذکورہ تجارتی معاہدہ (پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ) 1965ء میں کیا گیا تھا جسے بعدازاں دوہزار اکیس (10 سال) تک توسیع دی گئی اور اِس معاہدے کی میعاد بھی 11 فروری 2021ء کے روز ختم ہونے کے بعد مزید توسیع دیدی گئی ہے جبکہ دونوں ممالک کے حکومتی و نجی نمائندوں درمیان بات چیت کے کئی ادوار بغیر کسی نتیجے کے اختتام پذیر ہوئے ہیں جبکہ تاحال کسی ’نئے تجارتی معاہدہ‘ پر اتفاق رائے نہیں ہو سکا ہے البتہ غوروخوض اور مشاورت کیلئے اجلاسوں اور وفود کے تبادلوں کا سلسلہ جاری ہے۔
افغان ٹرانزٹ ٹریڈ نئی شرائط و ضوابط کے ساتھ کرنے کیلئے افغانستان رضامند نہیں جو چاہتا ہے کہ ماضی کے تجارتی معاہدے کی من و عن دوبارہ توثیق کر دی جائے‘ جو پاکستان کے مفاد میں نہیں اور اِس صورتحال میں جبکہ پاکستان انسانی ہمدردی اور عالمی قواعد کی بنیاد پر افغانستان کیلئے اشیا و اجناس کی تجارتی راہداری بند بھی نہیں کرسکتا تو تجارتی معاہدہ معطل ہوئے ایک سال سے زائد عرصے گزرنے کے باوجود بھی پاکستان کے راستے افغان تجارت جاری ہے۔بنیادی بات یہ ہے کہ پاکستان کیلئے افغانستان اور افغانستان کیلئے پاکستان یکساں اہمیت کے حامل ہیں۔
پاکستان کی وسط ایشیائی ممالک کو برآمدات کا راستہ افغانستان سے ہو کر گزرتا ہے جو فی الوقت روس یوکرین جنگ سے متاثر ہے۔ اقوام متحدہ کی جانب سے 1982ء کے ایک عالمی قاعدے کے مطابق سمندر سے غیرمتصل (landlocked) ممالک کو اُن کے ہمسائے راہداری کی سہولت فراہم کریں گے اور پاکستان باقاعدہ معاہدے کے تحت افغانستان کو یہ ’غیرمشروط‘ تجارتی سہولت 1965ء سے فراہم کر رہا ہے۔ فروری دوہزاربائیس میں پاک افغان مشترکہ ایوان ہائے صنعت و تجارت (پاکستان افغانستان جائنٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز) نے اِس بات پر تشویش کا اظہار کیا تھا کہ پاک افغان تجارت جس کا اوسط سالانہ حجم ڈھائی ارب ڈالر ہوا کرتا تھا کم ہو کر ایک ارب ڈالر رہ گئی ہے۔
پشاور سے قریب ساٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر پاک افغان ’طورخم‘ ضلع خیبر کا حصہ ہے جو ابخیبرپختونخوا کا بندوستی ضلع ہے۔ پاکستان سے چینی‘ کھاد اور دیگر ایسی اشیاء کی سمگلنگ کو اب بہر صورت روکنا ضروری ہے۔ بالخصوص ایک ایسے وقت میں جبکہ عیدالاضحی گنتی کے چند دن دور ہے‘ جاری سمگلنگ سے پاکستان میں اجناس و اشیا اور مال مویشیوں کی قیمتیں بڑھ سکتی ہیں‘ بہتر رہے گا کہ اس مخصوص پوائنٹ پرکلوزسرکٹ ٹیلی ویژن کیمروں کا دائرہ وسیع کیا جائے اور اسمگلنگ روکنے کیلئے رات کی تاریکی (کم روشنی) میں دیکھنے کی صلاحیت رکھنے والے ڈرون طیاروں کا استعمال کیا جائے۔