پشاور کے سرتاج روحانی خانوادے کے چشم و چراغ سیّد سبطین گیلانی المعروف ’تاج آغا‘ نے ذرائع ابلاغ کی اہمیت‘ اقدار و اخلاقیات‘ عصری تقاضے اور شرعی ذمہ داریوں کے حوالے سے خصوصی نشست میں توجہ دلائی ہے کہ دائرہئ اسلام میں ”پورے کے پورے داخل ہونے“ کے حکم پر غور ہونا چاہئے بالخصوص ذرائع ابلاغ سے جڑے صحافیوں اور سوشل میڈیا صارفین کو چاہئے کہ وہ اِسلام کے سیاسی‘ سماجی‘ معاشی‘ اِقتصادی‘ فلاحی‘ خاندانی نظام‘ اسلامی معاشرے کے خدوخال پر مبنی اَخلاقی اَقدار اور اِسلامی مقدسات کے احترام و حرمت بارے عوامی شعور (خواندگی) میں اضافہ کریں کیونکہ صرف اسلام پر حقیقی معنوں میں عمل پیرا ہونے میں موجودہ (حال) اور آنے والے دور (مستقبل) کے بہت سارے مسائل و مشکلات کا حل موجود ہے۔“
صحافت کے اقدار و اصول اور اِس تناظر میں درپیش عصری مسائل سے متعلق تاج آغا حفظہ اللہ کے کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ ”اسلام آزادیئ اظہار کا قائل ہے اور اسلام نے ”حریت ِرائے“ جیسے انسانی حق کو اُس وقت تسلیم کیا جب دنیا اِس تصور سے آشنا نہیں تھی۔ اسلامی تاریخ میں ایسے متعدد واقعات ملتے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام نے ”حریت رائے (آزادیئ اظہار)“ کا کس درجہ احترام کیا اور کہاں تک آزادی بخشی۔ غزوہئ احد میں ختمی مرتبت حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کی رائے تھی کہ مدینہ منورہ کے اندر رہ کر مقابلہ کیاجائے مگر حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اور نوجوانوں کی رائے یہ تھی کہ مدینہ منورہ (شہر) کی حدود باہر نکل کر جنگ کی جائے۔ جب آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ دیکھا کہ اکثریت شہر سے باہر نکل کر جنگ کرنے کے حق میں ہے تو اسی کے مطابق عزم جنگ کیا اور مسلح ہونے کے لئے حجرہ مبارک میں تشریف لے گئے۔ اسی طرح ایک موقع پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے درمیان جنگی قیدیوں کے بارے میں اختلاف ہوا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے یہ تھی کہ اِن قیدیوں کو قتل کردیاجائے جبکہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا مؤقف تھا کہ اِنہیں فدیہ لے کر چھوڑ دینا چاہئے۔ اسی طرح کے اختلاف رائے دیگر امور و معاملات میں دیکھنے کو ملتے ہیں‘ جن کی مذمت نہیں کی گئی بلکہ اسلام میں اختلاف اور مشاورت دونوں کو اہمیت دی گئی ہے لیکن اصول یہ ہے کہ ہر شخص کو اُس کی بات کہنے کا حق حاصل ہے لیکن حتمی فیصلہ اتفاق رائے سے کیا جائے گا یہی وجہ ہے کہ اسلام نے قیاس کو اہم ترین اصولوں میں شامل کیا ہے اور اِسے ”اہم رکن“ قرار دیا ہے۔ قیاس کے سلسلے میں الحاق اور استنباط کیلئے بھی اسلام نے وسیع میدان کھلا چھوڑا ہے اور رائے و نظر کو پوری آزادی مرحمت فرمائی ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ”صائب الرائے“ کو اجر کا مستحق قرا ر دیا ہے کہ ہر مجتہد کو اجر ملتا ہے اگر
اس نے اجتہاد میں چوک کی تو اسے ایک اجر ملے گا اور اگر اس نے صحیح اجتہاد کیا تو اسے دو اجر ملیں گے۔ اس سے ثابت ہوا کہ اگر اجتہاد کبھی کبھی غلط کیوں نہ ہو لیکن یہ باعث اجر ہے۔ ذہن نشین رہے کہ اسلام نے حاکم (امیرالمومنین) کو اہل الرائے کے مشورے کا پابند بنایا ہے۔ سیّدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ ”آیت قرآنی کی رو سے ”عزم“ سے کیا مراد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا (ترجمہ) ”کسی امیر کا اہل الرائے سے مشورہ کرنا اور پھر اُس مشورے کا پابند ہونا بھی عزم ہے۔“ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین سے مختلف معاملات میں مشاورت فرمایا کرتے تھے اور اکثر ذاتی رائے پر صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کی رائے کو فوقیت دیتے ہوئے عمل فرماتے۔ جنگ احد کے موقع پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی رائے کے علی الرغم مدینہ میں رہ کر دشمن کا مقابلہ کرنے کی بجائے احد پہاڑ کے دامن میں دشمن سے مقابلہ کیا۔ لائق توجہ ہے کہ قرآن کریم میں بنی اسرائیل کے تنزل کے اسباب بیان کئے گئے ہیں اور ان میں ایک سبب یہ ہے کہ ”کانوا لا یتناھون عن منکر فعلوہ۔“ (کہ وہ برائیوں سے ایک دوسرے کو منع نہیں کرتے تھے) یعنی کسی قوم میں اگر یہ حالات پیدا ہوجائیں کہ برائی کے خلاف کوئی آواز اٹھانے والا نہ ہو تو آخر کار رفتہ رفتہ وہ بُرائی پوری قوم میں پھیل جاتی ہے۔“۔ جس طرح میدان جنگ میں شجاعت اور پامردی کا اظہار ضروری ہوتا ہے۔بعینہ اسی طرح دل‘ زبان اور قلم کی مشترکہ قوت سے حق کی حمایت کا نام ”حق گوئی“ ہے۔“