کرپٹو کرنسی ’بٹ کوائن‘ کی قدر میں کمی کا سلسلہ جاری ہے اور رواں ماہ (جون دوہزاربائیس) کے بیس دنوں میں ایک ’بٹ کوائن‘ کی قیمت میں 37فیصد کمی آ چکی ہے جبکہ مجموعی طور پر یہ کمی 57 فیصد ہے اور فی بٹ کوائن 20 ہزار ڈالر کی سطح پر آ گیا ہے جو دسمبر 2020ء کے بعد سے بٹ کوائن کی سب سے کم قیمت ہے۔ اور یہی وہ منفی رجحان ہے جس کی طرف ’بٹ کوائن‘ کے مخالفین شروع دن سے توجہ دلا رہے تھے‘ اِس کرنسی میں سرمایہ کاری نسبتاً زیادہ پُرخطر ہے اور یہ مؤقف سچ ثابت ہوا ہے کیونکہ ’بٹ کوائن‘ سے چھٹکارا پانے کے اچانک رجحان نے اِس کی قیمت کو غیرمستحکم کردیا۔ یہ سب کچھ نہایت ہی تیزی سے ہو رہا ہے اور ضرب صرافہ میں اِس رجحان سے افراتفری کا ماحول ہے کیونکہ اگر کسی شخص نے ایک لاکھ روپے کے بٹ کوائن خریدے ہیں تو اُسے قریب 60 ہزار روپے نقصان ہوچکا ہے! چونکہ ’بٹ کوائن‘ نامی مصنوعی کرنسی کی پشت پر کوئی بھی حکومت یا حکومتی ادارہ نہیں اِس لئے اِسے سنبھالا دینے کیلئے مارکیٹ میں مداخلت بھی نہیں کی جا رہی۔ اِس افراتفری کا منفی اثر ’بٹ کوائن‘ کے مستقبل کو تاریک بنا رہا ہے اور اگرچہ اِس بات کا امکان اپنی جگہ موجود ہے کہ ’بٹ کوائن‘ میں سرمایہ کاری کر کے اِس کی قیمت کو دوبارہ تاریخ کی بلند ترین سطح تک پہنچا دیا جائے گا کیونکہ مصنوعی کرنسی کے بازار کے سٹے باز ایسے کسی موقع کی تلاش میں رہتے ہیں جہاں وہ سرمایہ کاری کر سکیں اور پھر ایسی سرمایہ کاری کہ جس میں پچاس فیصد سے زائد منافع کا امکان ہو تو کون ذی شعور نہیں چاہے گا کہ وہ اِس نادر موقع سے فائدہ نہ اُٹھائے۔
ذہن نشین رہے کہ اکیس جون دوہزاربائیس کے روز پاکستانی روپے میں ایک بٹ کوائن کی قیمت 42لاکھ 97 ہزار 610 روپے 35 پیسے تھی جبکہ 20 اکتوبر 2021ء کے روز ایک بٹ کوائن کی قدر 1 کروڑ 14 لاکھ 30 ہزار 708 پاکستانی روپے تھی! چونکہ پاکستانی روپے کی قدر امریکی ڈالر کے مقابلے بھی کم ہوئی ہے اِس لئے بٹ کوائن قیمت میں کمی کا منفی اثر اُن صارفین پر زیادہ پڑا ہے جو پاکستانی روپے میں سرمایہ کاری کئے بیٹھے تھے!’بٹ کوائن‘ کو مستقبل کی کرنسی قرار دینے اور اِس پر یقین رکھنے والوں کو اُن اعدادوشمار پر بھی نظر رکھنی چاہئے جو اِس کرنسی کے مجموعی حجم سے متعلق ہیں۔ مثال کے طور پر نومبر 2021ء میں ’بٹ کوائن‘ کا پوری دنیا میں مجموعی حجم 9.2 کھرب ڈالر تھا جو کم ہو کر 870 ارب ڈالر رہ گیا ہے۔ کسی کرنسی پر سے سرمایہ کاروں کا اعتماد اُٹھنے کی انوکھی مثال اپنی جگہ سبق آموز بھی ہے کیونکہ ’بٹ کوائن‘ کی قدر میں اضافہ بھی یکساں حیران کن تھا جیسا کہ اِس کے زوال یعنی موجودہ وقت میں دکھائی دے رہا ہے۔ جاپان میں ایجاد ہوئی ’بٹ کوائن‘ کے مقابلے میں ہانگ کانگ نے ’ٹیتھر نامی کرپٹو کرنسی متعارف کروا رکھی ہے جو جنوری 2012ء سے متبادل کرپٹوکرنسی کے طور پر خریدی اور فروخت کی جارہی ہے اور اِس کرنسی کا مجموعی حجم 80 ارب ڈالر سے زیادہ ہے لیکن ٹیتھر متعارف کرانے والی کمپنیوں کے بارے میں ایک رائے یہ بھی پائی جاتی ہے کہ ’بٹ کوائن‘ کی قیمت کو غیرمستحکم کرنے اور اِس میں کمی بیشی لانے میں ’ٹیتھر لمٹیڈ‘ اور ’ٹیتھر کرپٹوکرنسی‘ نامی کمپنیوں کا ہاتھ ہے جو ایک ہی مالیاتی ادارے کے دو نام ہیں اور یہ ’بٹ کوائن‘ کی قیمت کے تعین میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں تاکہ سرمایہ کاروں کو ’ٹیتھر‘ کی جانب راغب کر سکیں۔
کرپٹو کرنسی المعروف ”کرپٹو“ ڈیجیٹل کرنسی ہے جو کمپیوٹروں کی دنیا میں تخلیق اُور خرید و فروخت کی جاتی ہے اور اِسے بہت سارے کمپیوٹروں کو آپس میں منسلک کرنے یعنی نیٹ ورکنگ کے ذریعے محفوظ رکھا جاتا ہے۔ دنیا کا کوئی بھی ملک یا ادارہ مثلاً بینک اِس پر اثرانداز نہیں ہو سکتے اور نہ ہی اِس کی قیمت مقرر کر سکتے ہیں۔ کرپٹو کے انفرادی سکے کی ملکیت کے ریکارڈ کو ڈیجیٹل لیجر میں ذخیرہ کیا جاتا ہے‘ جو ایک مرکزی کمپیوٹرائزڈ ڈیٹا بیس سے جڑا ہوتا ہے اور اِس میں ہر خریدوفروخت یعنی مالیاتی لین دین کے کوائف محفوظ رکھے جاتے ہیں۔ اضافی کرپٹو سکوں کی تخلیق روکنے اور اِس سکے کی ملکیت کی ایک نام سے دوسرے نام منتقلی کی تصدیق کرنے کیلئے ’مضبوط کرپٹوگرافی‘ کا استعمال کیا جاتا ہے لیکن تمام تر خصوصیات کے باوجود بھی ’کرپٹو‘ کرنسی روایتی کرنسی کا درجہ حاصل نہیں کر سکی ہے اور اِس میں لین دین عالمی سطح پر لین دین کی طرح رائج نہیں ہو سکا ہے۔ کرپٹو میں سرمایہ کاری کرنے والے عالمی مالیاتی نظام سے الگ ایک ایسے نئے نظام سے جڑے ہوتے ہیں جس میں توسیع کے زیادہ امکانات نہیں البتہ ایک خاص طبقے کیلئے مصروفیت اور سرمایہ کاری کو کھیل کی صورت دیکھنے جیسا ہے تاہم یہ کھیل کھربوں ڈالر کا ہے۔ کرپٹو کے ساتھ کرپٹو اسکیمیں بھی متعارف ہوئی ہیں جو کرپٹو کرنسی کی قدر کو برقرار رکھنے کیلئے ویلیڈیٹرز کا استعمال کرتی ہیں۔ ”پروف آف سٹیک“ ماڈل میں مالکان اپنے ٹوکن بطور کولیٹرل استعمال کرتے ہیں اور اس کے بدلے میں انہیں ٹوکن پر اختیار اُس رقم کے تناسب سے ملتا ہے جو اُنہوں نے کرپٹو میں سرمایہ کاری کی صورت داؤ پر لگائی ہوتی ہیں۔ عام طور پر‘ اِن ٹوکن سٹیکرز کو نیٹ ورک فیس‘ نئے ڈھالے ہوئے ٹوکن یا اس طرح کے دیگر انعامی میکانزم کے ذریعے وقت کے ساتھ ٹوکن میں اِضافی ملکیت ملتی ہے۔ پاکستان کے دگرگوں معاشی حالات اور غیرمستحکم روپے کی وجہ سے ’کرپٹو‘ وقتی منافع سے زیادہ دائمی نقصان کا باعث ہے اور اِس میں سرمایہ کاری کیلئے راغب کرنے والوں کے دلائل اور سہانے خوابوں سے الگ رہنے ہی میں عافیت ہے۔