پاکستان دنیا میں چائے درآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ پاکستان ہر سال اوسطاً ’60 کروڑ امریکی ڈالر‘ مالیت کی سیاہ چائے (خشک پتی) درآمد کرتا ہے۔ چائے کی ایجاد (دریافت) بطور دوا قریب پانچ ہزار سال قبل ہوئی تھی اور اِسے ’ہونگ چے (Hong Che)‘ کا نام دیا گیا جس کا مطلب ’لال چائے‘ تھی‘ اِسی مناسبت سے کئی ممالک میں کالی چائے کو لال چائے (ریڈ ٹی) کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ چائے کا زیادہ استعمال کرنے والے ممالک کا تعلق ایشیا اور جنوبی ایشیا سے ہے لیکن خاص بات یہ ہے کہ چائے استعمال کرنے والے ممالک اِس کی کاشت و پیداوار اپنے ہاں کرتے ہیں جبکہ پاکستان میں چائے کی کاشت کیلئے موزوں آب و ہوا ہونے کے باوجود بھی چائے کی ملکی ضروریات کے لئے پیداوار حاصل نہیں کی جاتی۔ پاکستان ایگری کلچر ریسرچ کونسل (PARC) نے 20 سال کی تحقیق کے بعد 1982ء اور 1986ء کے دوران بٹل اور شنکیاری میں چائے کی کاشت کی‘ جسے 1991ء میں برطانیہ کے ’ٹی کرافٹ‘ نامی ادارے نے دنیا کی بہترین چائے قرار دیا تھا۔ چین کی مدد سے پاکستان میں یومیہ ایک ہزار کلوگرام چائے حاصل ہونے لگی لیکن چائے (سیاہ اور سبز) کی کاشتکاری کو خاطرخواہ ترقی (توجہ) نہیں دی گئی جس کی وجہ سے یہ ملکی ضروریات کیلئے بھی کافی نہیں رہی اور رفتہ رفتہ فیصلہ ساز اور کاشتکار بھول گئے کہ پاکستان میں چائے کی کاشت ہونا ممکن بھی ہے لیکن چائے کی درآمدات اور زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ بدستور موجود ہے۔چائے پاکستان کی ثقافت اور معمولات کا حصہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ اِس کی دریافت سے متعلق مختلف دعوؤں کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔ چائے کے شائقین کو اِس سے کوئی غرض نہیں کہ چائے چین کے بادشاد شین نونگ کے دور میں پہلی مرتبہ بنائی گئی یا اِسے برصغیرپاک و ہند میں بنایا گیا جہاں خوش خوراک بادشاہوں کے ذوق و شوق اور اطمینان کے لئے نت نئے کھانے اور مشروبات بنانے کے تجربات کئے جاتے تھے۔ دن کے آغاز سے اختتام تک چائے کا استعمال کیا جاتا ہے۔اُنیس سو کی دہائی کے اوائل میں ”ٹی ایسوسی ایشن آف انڈیا“ نے چائے کے گھریلو استعمال کو فروغ دینے کیلئے کئی مارکیٹنگ مہمات شروع کیں تاہم یہ ابتدائی مہمات پہلی جنگ عظیم تک عوام کی توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہیں۔ مذکورہ جنگ کے دوران بھارتی فوج اور راج کے سرکاری دفاتر ودیگر اداروں میں چائے کو ایک ایسے مشروب کے طور پر فروغ دیا گیا جو تھکاوٹ دور کرتا ہے اور ذہانت میں اضافہ کرتا ہے۔ اُس وقت چائے کا استعمال دشمن کے خلاف کامیابی کے لئے ایک حکمت عملی کے طور پر متعارف کرایا گیا اور پھر جب چائے مقبول ہوئی اور اِس کی مانگ بڑھی تو اِس سے جڑے معاشی فوائد بھی برطانوی راج ہی نے حاصل کئے۔ چائے پر ٹیکس لگایا گیا کیونکہ برطانوی راج کو ٹیکسوں کی شکل میں مالی وسائل کی ضرورت تھی تاکہ وہ جنگ کو طول دے سکیں لیکن اس سے بھی اہم بات یہ تھی کہ چائے برطانوی راج کی علامت بن گئی اور اِسے تہذیب و ترقی کی علامت کے طور پر متعارف کرایا جانے لگا۔ کھپت کو مقبول عام کرنے کیلئے پبلک مقامات اور کام کاج کی جگہوں پر چائے مفت فراہم کی گئی‘ یہی چائے کے سٹال بعد میں ڈھابے بن گئے اور یوں 1950ء تک چائے گھر گھر کی ضرورت یعنی ”عوامی مشروب“ بن گئی چونکہ چائے کی طلب زیادہ تھی اِس لئے پیداوار میں مشینوں اور مصنوعی رنگوں کا استعمال ہونے لگا تاکہ چائے کی پتی بنانے میں لاگت کم کی جا سکے لیکن اِس مشینی دور کے آغاز نے چائے کی پیداوار کے ساتھ اِس کے استعمال میں بھی اضافہ کیا‘ جو بالکل غیرضروری تھا۔ چائے کسی بھی طرح پاکستانی (مقامی) مشروب نہیں اور نہ ہی اِس کا استعمال ذہنی صحت کے لئے ضروری ہے بلکہ کئی ایسی مثالیں بھی موجود ہیں جس میں ڈاکٹر چائے کی پتی کو اُبال کر اِس کے عرق اور دودھ کو آپس میں ملانے کو انسانی صحت کیلئے مضر قرار دیتے ہیں۔ چائے کی پتی میں دودھ اور چینی ملانے سے کو کیمیائی محلول حاصل ہوتا ہے‘ وہ سوفیصدی انسانی صحت کے لئے مفید نہیں۔ چائے پر کی گئی ایک تحقیق کا اکثر حوالہ دیا جاتا ہے کہ اِس کے ذریعے سرطان (کینسر) ہونے کے امکانات کم ہوتے ہیں لیکن ڈاکٹروں کے مطابق ایسا صرف اُسی صورت ممکن ہے جب چائے کی پتی بنا دودھ اور بنا چینی ملائے ’خالص‘ حالت میں اُبال کر استعمال کی جائے۔ عموماً ایک سے زیادہ اقسام کی چائے کو آپس میں ملا کر جو پتی تیار کی جاتی ہے اُسے مخلوط (blend) کہا جاتا ہے اور پاکستان میں پسند کی جانے والی چائے کی پتی یہی ’بلینڈ‘ ہوتی ہے۔ تھوڑی دیر اُبالنے پر زیادہ رنگت دینے والی چائے کی پتی مختلف کیمیائی مادوں کا مجموعہ ہوتی ہے جسے بنانے کیلئے مذبح خانوں سے حاصل کردہ جانوروں کا خون خشک کر کے استعمال کیا جاتا ہے علاؤہ ازیں چائے کی پتی میں کئی قسم کی دیگر اشیا بھی شامل (ملاوٹ) کی جاتی ہیں۔ چائے چونکہ ایک نشہ ہے اور اِس سے ذہن کو سکون ملتا ہے اِس لئے نشے کے عادی غیرمحسوس طور پر چائے کی طرف راغب ہوتے ہیں۔ اکثر چائے خانوں میں چائے کیلئے پانی اُبالنے کے عمل میں ڈوڈے کے چھلکے ڈال دیئے جاتے ہیں جس سے چائے کی نشہ آور خصوصیات میں اضافہ ہو جاتا ہے اُور ایک مرتبہ اِس نشے کا عادی ہونے والا اپنے دن کا آغاز چائے کے بغیر نہیں کر سکتا۔ طبی نکتہئ نظر سے چائے کا ہر دن‘ کسی مقررہ وقت باقاعدگی سے مسلسل استعمال صحت کے لئے بالکل اُسی طرح مضر ہے جس طرح تمباکو نوشی یا دیگر نشہ آور اشیا کی لت۔ لہٰذا دانشمندی اِسی میں ہے کہ چائے کا کم سے کم (محتاط) اور اوقات بدل کر استعمال کرتے ہوئے اِس نشے سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔ چائے کسی بھی طرح تہذیب کی نشانی نہیں اور نہ ہی اِسے فیشن کے طور پر ضرورت سمجھتے ہوئے نئی نسل کو یہ عادت منتقل کرنا جائز ہے۔ سمجھنا چاہئے کہ غیرملکی (ملٹی نیشنل ادارے) چائے کی دلفریب و دلکش بنا کر فروخت کرتے ہیں اور اِس کاروبار کے تانبے بانے خشک دودھ‘ مصنوعی دودھ (ٹی وائٹنر) کے ساتھ بھی جڑا ہوا ہے۔