وطنِ عزیز میں سیاسی گرما گرمی کا دور چل رہا ہے یہ سب ایسے وقت میں ہورہا ہے جب ملک کا نوجوان طبقہ بے روزگاری سے پریشان ہے۔ اتنا پریشان کہ صرف پریشان کہہ دینے سے اس کی پریشانی کا احاطہ نہیں ہوتا۔ماہرین نے اسے دور تک پھیلی ہوئی نوجوانوں کی مایوسی قرار دیا اور کہا ہے کہ یہ مایوسی ملک کے معاشی استحکام کیلئے خطرہ ہے۔ پڑھے لکھے نوجوانوں میں بھی بے روزگاری کم نہیں ہے لہٰذا کم پڑھے لکھے اور ناخواندہ لوگوں کے روزگار کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو روز گار کی تلاش میں شہروں کا رخ کرتے رہے،تاہم یہاں پر بھی ان کا مسئلہ حل نہیں ہوا تو بہت سے شہر چھوڑ کر واپس گاؤں چلے گئے اور زراعتی کاموں میں مصروف ہوگئے۔ وہ مایوس ہوکر ہی لوٹے ہیں۔ مگر وہ پھر بھی خوش قسمت ہیں کہ گاؤں جاکر اور زراعتی کاموں سے وابستہ ہوکر انکی تھوڑی بہت گذر بسر تو ہونے لگی، جو گاؤں واپس نہیں جاسکتے تھے ان کے پاس تو یہ متبادل بھی نہیں تھا۔ اب بھی نہیں ہے۔ وہ کہاں جائیں؟ اگر دیکھا جائے تو وطن عزیز میں زراعت وہ شعبہ ہے جس پر اگر توجہ دی جائے تو یہاں پر ملک کے سارے بے روزگاروں کو روزگار ملنے کے امکانات ہیں اور تعلیم یافتہ سکلڈ ورکر کی جتنی ضرورت جدید زراعت میں ہے شاید ہی کسی اور شعبے میں ہو۔ یوکرین اور روس جنگ نے دنیا پر آشکارہ کیا کہ زراعت کے شعبے کی کیا اہمیت ہے۔ ان دو ممالک میں زراعت ترقی یافتہ شکل میں میں موجود ہے اور ان ممالک سے زرعی پیدوار کا عالمی مارکیٹ میں آنا جب ممکن نہ رہا تو پوری دنیا میں غذائی بحران نے سر اٹھانا شروع کر دیا ہے۔ ساتھ ہی چین بھی ان ممالک میں سے ہے جو زراعت میں باقی دنیا کیلئے مثال اور جس سے ملک کی بڑی آبادی کو معیاری روزگار میسر ہے۔ بے روزگاری کو رواں برسوں میں سب سے زیادہ کی شرح تک پہنچے ہوئے بھی کافی وقت ہوچکا ہے۔ حکومت نے اتنے وقت میں بھی روزگار کی فراہمی کا کوئی انتظام نہیں کیا۔ یاد رہنا چاہئے کہ جو لوگ بے روزگار ہیں وہی پریشان ہوں ایسا نہیں ہے بلکہ پریشان حال لوگوں میں بہت سے ایسے بھی ہیں جو کم معیاری یا غیر معیاری ملازمت پر اکتفا کررہے ہیں‘جنہیں تنخواہ تو مناسب ملتی ہے مگر وہ اپنے کام(جاب پروفائل)سے مطمئن نہیں ہیں۔ چھوڑ دیں تو دوسری ملازمت نہیں ملے گی۔ معیشت میں روزگار کے بے شمار مواقع موجود ہوں تو لوگ اپنی پسند کی ملازمت حاصل کرسکتے ہیں، انہیں یہ خطرہ نہیں رہتا کہ ایک کمپنی یا فرم سے علیحدہ ہوگئے تو دوسری کمپنی یا فرم میں نوکری نہیں ملے گی۔ جب اس طرح کی صورت حال ہوتی ہے تو کام کرنے والے پوری توانائی اور دلچسپی کے ساتھ کام کرتے ہیں اور ان کی وجہ سے پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ ہمارے ارباب اقتدار اس جانب توجہ دینا نہیں چاہتے اور یہی مسئلہ ہے۔ مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم سمجھتے کم ہیں، سمجھاتے زیادہ ہیں۔ سا بقہ حکومتوں میں بھی یہی رجحان تھا۔چنانچہ بیروزگاری کے خاتمے کے لیے جامع حکمت عملی اختیار نہ کی جاسکی اور نوجوانوں میں مایوسی بڑھتی چلی گئی کم از کم اس ایک نکتہ پر وسیع تر اتفاق رائے ہونا چاہیے میثاق روزگار اب ناگزیر ہو چکا بہتر ہوگا کہ تمام سیاسی جماعتیں اس حوالے سے سیاسی ڈائیلاگ کے ذریعے مستقل راستہ نکالیں کیونکہ ہر سیاسی جماعت کو لاکھوں بیروزگار نوجوانوں کی تائید و حمایت حاصل ہے ان کو مایوسی کی تاریکیوں سے نکالنا ان سب کی ذمہ داری بنتی ہے۔اور اس میں کوئی شک نہیں کہ میثاق روزگار کے تحت زراعت سمیت تمام پیداواری شعبوں پر توجہ مرکوز کرنا ہوگی۔