ماحولیات: بے قابو انتشار (وجودی خطرہ) 

 کرہئ ارض کے درجہئ حرارت میں اضافہ (گلوبل وارمنگ) کو وجودی خطرہ سمجھا جاتا ہے لیکن اِس خطرے کا کماحقہ احساس حکومت اور عوام کی سطح پر دیکھنے میں نہیں آ رہا۔ اصولاً خطرہ سمجھے جانے والے ہر کام سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے اُسے ایک محور کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جس کے ارد گرد تمام فیصلے گھومتے ہیں! انسانی علوم سے حرارت کے اخراج یا گرین ہاؤس (ماحول کے لئے نقصان دہ) گیسوں کے اخراج کو ”خرابی کی جڑ“ کے طور پر معلوم (درک و دریافت) کر لیا گیا ہے اور موسمیاتی تبدیلیوں (موافقت) کے متوقع منفی اثرات سے نمٹنے کے لئے متعدد حکمت ِعملیاں بھی تیار کی جاتی ہیں۔یادش بخیر قریب پچاس سال قبل (1972) میں سٹاک ہوم کنونشن اور 30 سال قبل (1992) میں ہونے والے ارتھ سمٹ کے بے نتیجہ ہونے کی وجہ سے عالمی برادری کو پیرس سمٹ (2015) طلب کرنا پڑی اور اس بات کو تسلیم کرنے میں مزید تیئس سال لگے کہ ”ماحولیاتی تبدیلی“ کسی بیرونی محرک کی وجہ سے نہیں بلکہ انسانی غلطیوں (سرگرمیوں) کا نتیجہ (حاصل) ہے اور کرہئ ارض کو بچانے کے لئے انسانوں کو اپنے ماحول دشمن معمولات تبدیل کرنا پڑیں گے لیکن جن اِس سلسلے میں جن فوری اقدامات کی ضرورت پر زور دیا گیا اُنہیں عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکا۔ 1995ء میں کرہئ ارض کا درجہئ حرارت کم کرنے کیلئے ہوئی کانفرنس جس میں صنعتی ترقی یافتہ ممالک سر جوڑ کر بیٹھے اور اتفاق رائے ہوا کہ کرہئ ارض کا درجہئ حرارت ڈیڑھ ڈگری سنٹی کی محفوظ حد کے اندر ہونا چاہئے اور اِس میں اضافے کو روکنے (درجہئ حرارت) میں کمی کے لئے فوری اقدامات ضروری (ناگزیر) ہیں اگرچہ ہر ترقی یافتہ ملک (فریق) ماحول دوستی کی بات کرتا ہے لیکن اپنے ہاں ماحول کے لئے مضر گیسوں کے اخراج (اُن عوامل) کی اصلاح نہیں کرتا جو بڑے پیمانے پر موسمیاتی (ماحولیاتی) تبدیلیوں کا باعث بن رہے ہیں۔ گزشتہ سال ”(ماحول سے لاتعلقی کی وجہ سے ہوئے) نقصانات اور خسارے“ کا جائزہ لیا گیا اور اِس سلسلے میں ”کلائمنٹ فنانس“ سے متعلق اہم سوالات کو اٹھائے گئے لیکن اجلاس نتیجہ خیز نہیں رہا۔ مذکورہ اجلاس اِس لئے طلب کیا گیا تھا تاکہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کیلئے صنعتی ترقی یافتہ ممالک مالی وسائل فراہم کریں اور ایسا بھی نہیں تھا کہ آب و ہوا کی اصلاح کیلئے مالی وسائل دستیاب نہیں ہے۔ دنیا کے سرمایہ دار ممالک جنگ اور تنازعات کیلئے اربوں ڈالر دیتے ہیں جیسا کہ یوکرائن کے لئے امریکہ نے چالیس ارب ڈالر‘ یورپی یونین دو ارب یورو اور برطانیہ نے ساڑھے تینتیس ملین پاؤنڈز امداد دینے کی حامی بھری ہے یہ ممالک ماحول کو نقصان پہنچانے والے عوامل کم کرنے میں خاطرخواہ بڑی سرمایہ کاری نہیں کرتے اور نہ ہی اپنے ہاں ماحول دشمن گیسوں کا اخراج کم کرنے کے لئے عملاً اقدامات (کوششیں) کرتے ہیں‘ جو اپنی جگہ اہم و ضروری ہیں۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ فی الوقت دنیا کا مستقبل 7 (صنعتی ترقی یافتہ) ممالک کے ہاتھ میں ہے۔ چین کی صنعتوں اور دیگر ذرائع سے ہر سال دس ارب میٹرک ٹن ’کاربن ڈائی آکسائیڈ‘ (ایم ٹی سی او ٹو) نامی ماحول دشمن گیس خارج ہوتی ہے۔ امریکہ پانچ اعشاریہ چار ارب ایم ٹی سی او ٹو‘ بھارت ڈھائی ارب ایم ٹی سی او ٹو‘ روس 1.7 ارب ایم ٹی سی او ٹو‘ جاپان ایک اعشاریہ دو ارب ایم ٹی سی او ٹو اور جرمنی صفر اعشاریہ پچھتہر ارب ایم ٹی سی او ٹو خارج کرتا ہے۔ ماحولیاتی علوم کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ موسمیاتی تبدیلیاں ماضی کے مقابلے (توقع سے) زیادہ تیزی سے رونما ہو رہی ہیں۔ سمندر کی سطح بلند ہو رہی ہے۔ سمندر کی تیزابیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ زمین کی خصوصیات میں تنزلی ہو رہی ہے۔ زمین کے وسائل (بشمول زرخیزی) کم ہو رہی ہے اور بڑی تعداد میں انواع و اقسام کی جنگلی حیات معدوم ہو رہی ہے‘ جس کی وجہ سے ماحولیاتی تنوع عدم توازن کا شکار ہے۔ پاکستان کے نکتہئ نظر سے دیکھا جائے تو اِن حقائق اور مذکورہ اعدادوشمار کا مطلب یہ ہے آب و ہوا کی وجہ سے ہونے والے نقصانات سالانہ 3.79 ارب ڈالر ہیں اور پاکستان دنیا کے ایسے 10 سرفہرست ممالک میں شامل ہے جو ’موسمیاتی تبدیلیوں‘ کے خطرے سے دوچار ہیں اور ہر سال پاکستان کی معیشت کو قریب چار ارب ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔ پاکستان کی آبادی ہر سال 2 فیصد کے تناسب سے بڑھ رہی ہے لیکن زرعی پیداوار کم ہو رہی ہے۔ آبادی کے اعدادوشمار کو مدنظر رکھتے ہوئے اندازہ ہے کہ سال 2030ء تک پاکستان کی آبادی 25 کروڑ 70 لاکھ (257ملین) سے تجاوز کر جائے گی! ایک ایسی صورتحال میں جبکہ افراط زر (مہنگائی) میں اضافہ اور معیشت پستی کی طرف گامزن ہو۔ ایک ایسی صورتحال جبکہ آبپاشی اور عوام (فی کس) کو دستیاب پانی کی مقدار ہر سال کم ہو رہی ہو۔ ایک ایسی صورتحال جس میں زرعی پیداوار بڑھانے کی بجائے درآمدات پر زیادہ توجہ دی جا رہی ہو تو ایسی صورت میں خوراک اور پانی کی قلت کے باعث پیدا ہونے والے بحران دستک دے رہے ہیں لیکن یہ دستک نظرانداز کی جا رہی ہے۔ پاکستان میں زیر زمین پانی کی کل صلاحیت تقریبا 68 ارب مکعب میٹر ہے جس میں سے ساٹھ ارب معکب میٹر سے غیرمحتاط استفادہ (اِس قیمتی وسیلے کا استحصال) کیا جا رہا ہے اور ظاہر ہے کہ جلد زیر زمین‘ صاف اور میٹھے پانی کا یہ اہم وسیلہ ختم ہو جائے گا لیکن اگر پانی کی اہمیت اور ماحولیاتی تبدیلیوں کو سمجھا جائے تو کم پانی‘ کم رقبے اور کم لاگت سے زیادہ پیداوار حاصل کرنے پر توجہ دی جائے تو مستقبل کے بحرانوں سے نمٹا جا سکتا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ پاکستان میں زیادہ پانی کے استعمال سے کم مقدار میں زرعی پیداوار (فصلیں) حاصل ہوتی ہیں جبکہ ملک کی چار بڑی فصلیں پانی کا 80فیصد حصہ استعمال کرنے کے باوجود ملک کی مجموعی خام پیداوار (گراس ڈومیسٹک پراڈکٹ‘ جی ڈی پی) میں پانچ فیصد سے بھی کم کی حصہ داری رکھتی ہیں۔ پانی کی پاکستان میں توانائی کا خسارہ بھی پاکستان کی معیشت کے لئے خطرہ ہے اور اگر ماحولیاتی تبدیلیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے خاطرخواہ اقدامات نہ کئے گئے تو آنے والے دنوں میں طلب و رسد کے درمیان فرق میں اضافے کی وجہ سے معاشی نقصانات اور خسارے بے قابو ہو جائیں گے۔