سیاسی اشتراک ِعمل

پاکستان تحریک انصاف اور مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے قائدین (عمران خان اور علامہ راجا ناصر عباس جعفری) کے درمیان سیاسی اشتراک عمل پر اتفاق رائے کے بعد دونوں جماعتوں کے درمیان تحریری معاہدے پر دستخط بھی ہوئے ہیں جو پاکستان کی سیاسی تاریخ کی اہم پیشرفت ہے۔ بنی گالہ اسلام آباد میں (بیس جون دوہزاربائیس کے روز) دونوں جماعتوں کے مرکزی رہنماؤں کا اجلاس ہوا جس میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے علاؤہ وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی اور ڈاکٹر شیریں مزاری جبکہ مجلس وحدت مسلمین کی طرف سے چیئرمین علامہ راجا ناصر عباس جعفری کے ساتھ وائس چیئرمین علامہ اقبال رضوی‘ سیکرٹری جنرل ناصر شیرازی اور سیکرٹری سیاسیات اسد نقوی شریک ہوئے۔ مذکورہ سیاسی اشتراک عمل کے سات نکاتی دستاویز میں جو امور بالترتیب شامل کئے گئے ہیں وہ پاکستان کے اہم ترین داخلہ و خارجہ امور اور مستقبل کی سیاسی حکمت ِعملی جیسے موضوعات کا احاطہ کرتے ہیں۔ بظاہر تو یہ چند سطروں پر مشتمل دستاویز ہے لیکن اگر اس پر حقیقی معنوں میں عمل درآمد کر لیا گیا اور دیگر سیاسی جماعتیں بھی اِس جانب متوجہ ہوئیں تو یقینا پاکستان عظیم‘ آزاد‘ خود مختار‘ باوقار اور امن وامان پر مبنی محفوظ اسلامی ریاست کی شکل اختیار کرسکتا ہے۔ درحقیقت سیاسی اشتراک عمل کے لئے مذکورہ اتفاق رائے کئی دہائیوں کی جدوجہد اور اِس جدوجہد سے اخذ اہداف کو الفاظ کی شکل دیئے جانے کی محنت ہے‘ جو بارآور ثابت ہوئی ہے۔تحریک انصاف اور مجلس وحدت مسلمین کے درمیان ’اشتراک عمل‘ کی دستاویز میں کہا گیا ہے کہ ”وطن عزیز پاکستان کی داخلی وحدت‘ سلامتی اور استحکام کو ہر صورت یقینی بنایا جائے گا۔ اسلامی اقدار کا تحفظ‘ تحریک پاکستان کی نظریاتی بنیادوں کی حفاظت اور سیاسی‘ اقتصادی اور دفاعی خود انحصاری کے حصول کے لئے (دونوں جماعتیں) مشترکہ جدوجہد کریں گی۔ اسرائیل کے حوالے سے بانیئ پاکستان قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ کی دی ہوئی گائیڈ لائنز سے کسی قسم کی روگردانی نہیں کی جائے گی اور کشمیر و فلسطین کے موضوعات پر اخلاقی و قانونی نقطہ نظر سے کسی قسم کا انحراف نہیں کیا جائے گا۔ پاکستان دنیا کے تمام ممالک کے ساتھ برابری کی بنیاد پر تعلقات کا خواہاں ہے۔ مسلم ممالک کے ساتھ اتحاد و وحدت کو خصوصی حیثیت حاصل ہوگی۔ ملکی معاملات میں غیر ملکی مداخلت کو روکنا خارجہ پالیسی کا بنیادی اصول ہوگا۔ مسلم ممالک کے باہمی تنازعات میں مذاکرات کے ذریعے راہ حل نکالنے کی کوشش کی جائے گی اور ان تنازعات میں فریق نہیں بنا جائے گا۔ دوست پڑوسی ممالک سے تعلقات کو
 خصوصی حیثیت حاصل ہوگی۔ گلگت بلتستان کو مکمل آئینی صوبہ بنایا جائے گا۔ وطن عزیز پاکستان میں  انصاف کی فراہمی کو اولین ترجیح دی جائے گی۔ پسماندہ اور استحصال شدہ طبقے کی بحالی اولین ترجیح ہوگی۔ پاکستانی سرزمین کسی بھی ملک کو فوجی اڈوں کے لئے نہیں دی جائے گی۔ پاکستان کے قومی فیصلے اسلام آباد ہی میں ہوں گے۔ آزاد خارجہ پالیسی اور داخلی خودمختاری بنیادی اصول ہیں اور اس بیانیے سے کسی طرح بھی روگردانی نہیں کی جائے گی“ ذہن نشین رہے کہ حجتہ الاسلام شہید علامہ عارف حسین الحسینیؒ (تاریخ شہادت 5 اگست 1988ء) نے پاکستان میں اِسلامی ریاست کے منشور سے متعلق تصور بصورت دستاویز پیش کیا تھا جس کا عنوان ”سبیلنا (ہمارا راستہ)“ میں ”خارجہ پالیسی“ کے خدوخال بیان کئے گئے کہ ”کسی بھی طاقت کی اقتصادی‘ ثقافتی‘ فوجی اور سیاسی بالادستی ہرگز قبول 
نہیں کی جائے گی۔ استعماری اور سامراجی عزائم کی مزاحمت کی جائے گی۔ تمام ممالک بالخصوص ہمسایہ ممالک سے دو طرفہ بنیادوں پر قریبی خوشگوار اور دوستانہ تعلقات قائم کئے جائیں گے ماسوائے ان ممالک کے جو نسل پرستانہ‘ صہیونی‘ سامراجی اور توسیع پسندانہ عزائم کے حامل ہوں ٗیا اسلام دشمن اور مسلم کش پالیسی اپنائے ہوں۔ ایسا کوئی معاہدہ نہیں کیا جائے گا اور نہ رو بہ عمل لایا جائے گا‘ جس کے تحت کوئی غیر ملکی طاقت ملک کے قدرتی وسائل پر تسلط یا تصرف حاصل کرسکے۔ کسی سامراجی طاقت کو فوجی مقاصد کیلئے پاکستان کی زمین‘ فضا اور پانی استعمال کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دی جائیگی دنیا بھر میں محروموں اور مظلوموں کی آزادی کی تحریکوں بالخصوص اسلامی تحریکوں کی حمایت کی جائے گی ٗالقدس اور دیگر مقامات مقدسہ کی حرمت و آزادی کو بنیادی اہمیت دی جائیگی“یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ مجلس وحدت مسلمین اور تحریک انصاف کے درمیان جن نکات پر اتفاق رائے ہوا وہ قیام پاکستان کے بنیادی مقصد و نظریئے اور پاکستان میں اسلامی اقدار کے تحفظ کیلئے تحریر کردہ ”سبیلنا“ نامی دستاویز ہی کی شرح ہے‘ جسے تسلیم کرنے میں تحریک انصاف نے جس وسعت نظری کا مظاہرہ کیا ہے وہ قابل تعریف ہے کسی بھی اقدام کی اصل حقیقت زمینی حقائق سے صرف ِنظر کرکے نہیں سمجھی جا سکتی۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ جب سیاسی جماعتوں کے درمیان اتفاق رائے ہوتا ہے تو اِس سے ہمیشہ خیر کے پہلو نکلتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی فہم و ادراک کی سطح اگر اِس حد تک بلند ہو چکی ہے اور یہ مشترکات پر احسن انداز سے اکٹھا ہو رہے ہیں تو یہی سیاست کا ”حقیقی حسن“ ہے کہ اِس سے اختلافات کی بجائے اتفاق رائے پیدا ہو۔ سیاسی جماعتیں جب اپنی ترجیحات کا تعین کرتی ہیں تو یہ عمل دراصل اُن کے ہوش و خرد کا امتحان ہوتا ہے اور یہی ’ہوش و خرد‘ تحریک و مجلس کے درمیان ہوئے اتفاق رائے کی سب سے نمایاں خصوصیت ہے۔