کانگو وائرس: احتیاط اور قربانی

مال مویشیوں (جانوروں) سے انسانوں میں منتقل ہونے والی بیماریوں میں ’کانگو‘ نامی بیماری خیبرپختونخوا میں پھیل رہی ہے اور رواں ہفتے (جون دوہزاربائیس) کانگو سے متاثرہ مریض ’حیات آباد میڈیکل کمپلیکس ہسپتال (پشاور) میں ہلاک ہو چکا ہے جبکہ کانگو بخار میں مبتلا چار دیگر مریض زیرعلاج ہیں۔ صوبائی اور قومی ادارہ صحت نے خبردار کیا ہے کہ عیدالاضحی کے موقع پر کانگو بخار کے کیسز بڑھنے کے خدشات ہیں جس کے بچاؤ کیلئے احتیاطی تدابیر اپنائی جائیں اور بالخصوص بچوں کو قربانی کے لئے لائے گئے جانوروں سے الگ رکھا جائے۔ قومی ادارہ صحت کے ”الرٹ“ میں کہا گیا ہے کہ شہری مویشی منڈی جاتے ہوئے ہلکے رنگ کے پوری آستینوں والے اور آگے سے بند کپڑے اور جوتے پہنیں۔ مویشی منڈی سے گھر واپس آکر نہائیں یا کم سے کم کپڑے تبدیل کر لیں۔ قربانی کا جانور خریدنے سے پہلے اچھی طرح یقین کر لیں کہ اس کے جسم پر چیچڑیاں نہ ہوں۔ قربانی کا گوشت بناتے اور دھوتے ہوئے دستانے استعمال کئے جائیں۔
 قربانی کے جانوروں کا گوشت اچھی طرح پکاکر کھایا جائے۔اِس بخار کی مخصوص علامات میں اچانک تیز بخار‘ کمر‘ پٹھوں اور گردن میں درد‘ کھینچاؤ‘ متلی‘ قے‘ گلے کی سوزش‘ جسم پرسرخ رنگ کے دھبے ظاہر ہونا ہے۔ مسوڑھوں‘ ناک اور اندرونی اعضا سے خون آنا بھی کانگو بخار کی علامات میں شامل ہے۔ خیبرپختونخوا کے محکمہئ صحت نے صوبے کے تمام اضلاع کے متعلقہ حکام سے کہا ہے کہ وہ کانگو بخار کے مشتبہ مریضوں کے نمونے ’خیبر میڈیکل یونیورسٹی پشاور‘ کی پبلک ہیلتھ ریفرنس لیبارٹری بھیجیں۔ ماہرین صحت نے خبردار کیا ہے کہ مویشی منڈیوں میں یا عیدالاضحی پر قربانی کی رسومات کے دوران جانوروں کے قریبی رابطے میں نہ رہیں۔ 
انہوں نے فوری تشخیص کے لئے ضلعی ہسپتالوں میں پولیمرز چین ری ایکشن (پی سی آر) ٹیسٹ کا مطالبہ کیا ہے کیونکہ صحت کی سہولیات نے کریمیا کے ”کانگو ہیمرجک فیور (سی سی ایچ ایف)“ سے متاثرہ مریضوں کو وصول کرنا شروع کردیا ہے۔”سی سی ایچ ایف“ عام طور پر چھچڑی (ٹک) کے ذریعے اور خون کے ذریعے متاثرہ جانور کے ساتھ رابطے کے ذریعے منتقل ہوتا ہے۔ گزشتہ سال انہی ایام (عیدالاضحیٰ کے موقع پر) درجہئ چہارم کا ایک ملازم اُس وقت انتقال کر گیا جب وہ طبی تدریسی اداروں میں سے ایک میں متاثرہ مریض کے رابطے میں رہا۔ فی الوقت حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں کانگو بخار کے چار مریض زیرعلاج ہیں جن میں سے دو مریضوں میں کانگو بخار انتہائی شکل میں موجود ہے جبکہ دیگر مرض کی ابتدائی علامات سے گزر رہے ہیں۔
 کانگو بخار کیلئے لیبارٹری ٹیسٹ (پی سی آر) کی قیمت آغا خان یا شوکت خانم نامی نجی لیبارٹریز سے بالترتیب پندرہ اُور تیرہ ہزار روپے ہے جو عام آدمی کی قوت خرید سے زیادہ ہے جبکہ خیبرپختونخوا حکومت نے خیبر میڈیکل یونیورسٹی کی پبلک ہیلتھ ریفرنس لیبارٹری میں ’پی سی آر‘ ٹیسٹ مفت کرنے کی سہولت فراہم کی ہے اور اِس سلسلے میں مراسلہ (سرکلر) بھی جاری کر دیا گیا ہے جس میں خیبرپختونخوا کے تمام ہسپتالوں سے کہا گیا ہے کہ وہ کانگو مرض کے مشتبہ مریضوں کے نمونے خیبر میڈیکل یونیورسٹی بھیجیں۔ مذکورہ لیبارٹری نہ صرف کانگو بلکہ ہیضہ‘ ٹائیفائیڈ‘ ڈینگی اور کورونا وبا کی تشخیص کیلئے ’پی سی آر‘ ٹیسٹ کئے جاتے ہیں۔
 فی الوقت خیبر میڈیکل یونیورسٹی کو کانگو کے مشکوک مریضوں کے یومیہ چار سے پانچ نمونے مل رہے ہیں جبکہ پشاور کے علاؤہ دیگر اضلاع کے ’ضلعی ہیڈ کوارٹر ہسپتالوں‘ اور ’میڈیکل ٹیچنگ اداروں‘ کو نمونے ارسال کرنے کی اطلاع دیدی گئی ہے۔ محکمہئ صحت خیبرپختونخوا نے کورونا وبا کے دوران مختلف اضلاع میں 17 تجزیہ گاہیں (پیتھالوجی لیبارٹریاں) قائم کیں تھیں جنہیں کانگو ٹیسٹنگ کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے تاہم اضلاع سے مشکوک کانگو مریضوں کے نمونے پشاور بھیجنے اور نتائج کا انتظار کرنے میں بہت زیادہ وقت لگے گا اور کانگو ’پی سی آر‘ ٹیسٹنگ کرنے کے لئے خصوصی تربیت یافتہ عملے کی کمی بھی ایک الگ مسئلہ ہے۔