مہنگائی سے پریشان حال طبقات میں مزدور کسان بالخصوص چھوٹے کاشتکار بھی شامل ہیں‘ جو چاہتے ہیں کہ حکومت زرعی شعبے کو مہنگائی کے اثرات سے محفوظ بنانے کے لئے عملی اقدامات کرے کیونکہ صرف یہی ایک شعبہ ’غذائی خودکفالت‘ کے خواب کی تعبیر کر سکتا ہے اور اگر زراعت پر انحصار کرتے ہوئے قومی وسائل کو ترقی دی جائے تو اِس سے قومی قرضوں کا بوجھ کم کرنے میں مدد ملے گی اور مزید قرض لینے کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی۔ سمجھنا ہوگا کہ ’دو وقت کی روٹی اور دال ساگ‘ پاکستان کی نصف سے زائد آبادی کیلئے زندگی اور موت جیسی اہمیت رکھتی ہے۔ یہ اَمر بھی توجہ طلب ہے کہ ہر دن زرعی پیداواری اخراجات میں اضافے کی وجہ سے کاشتکاری منافع بخش نہیں رہی جبکہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کی وجہ سے پیداوار میں کمی ہو رہی ہے اور فصل یا پھلوں کا بڑا حصہ ضائع ہونا معمول بن چکے ہیں۔ نتیجتاً حقیقت حال یہ ہے کہ اب بمشکل کسی بھی فصل پر اُٹھنے والی ’اصل لاگت‘ اُس کی پیداوار سے حاصل (پوری) ہو پاتی ہے۔زرعی پیداواری اخراجات میں سرفہرست ’کھاد کی قیمتیں‘ ہیں جن پر روپے کی قدر میں کمی اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے جیسے محرکات کا منفی اثر دیکھا جا سکتا ہے۔ فی الوقت کھاد کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں جس سے زراعت اور غذائی تحفظ پہلے کی توقع سے زیادہ خطرے میں پڑ گئے ہیں! پشاور کی کھاد مارکیٹ میں ڈی امونیم فاسفیٹ (ڈی اے پی) ساڑھے گیارہ ہزار سے ساڑھے بارہ ہزار روپے فی بوری (بیگ) کے درمیان فروخت ہو رہی ہے۔
پوٹاش (ایس او پی) کا سلفیٹ کی ایک بوری کی قیمت میں سولہ سو روپے کا اضافہ ہونے کے بعد اِس کی خوردہ قیمت گیارہ ہزار روپے فی بوری ہو چکی ہے۔ حالیہ چند ہفتوں کے دوران یوریا فی بوری بھی بائیس سو روپے مہنگی ہوئی ہے۔ گزشتہ ہفتے ڈی اے پی کی قیمتوں میں اضافے سے یہ بارہ ہزار ایک سو روپے فی بیگ کر دی گئی ہے جو کہ باقی کھادوں سے سات سو روپے زیادہ ہے۔ ایس او پی گزشتہ ہفتے تک گیارہ ہزار روپے فی بیگ فروخت ہو رہا تھا جو پانچ ہزار روپے فی بیگ جیسی بڑی چھلانگ لگا کر سولہ ہزار روپے میں فروخت ہو رہا ہے۔ ’ایم او پی‘ کی قیمت نسبتاً زیادہ بڑھی ہے جس کی فی بوری چار ہزار سے گیارہ ہزار روپے فی بوری تک جا پہنچی ہے! یوریا جس کی فی بیگ قیمت ساڑھے اٹھارہ سو سے اُنیس سو روپے مقرر تھی اور کھاد ڈیلرز اسے ساڑھے اُنیس سو روپے فی بیگ فروخت کرتے تھے لیکن اب پشاور کے مختلف مقامات پر یہ اکیس سے بائیس سو روپے فی بیگ فروخت کی جارہی ہے۔ کھاد ہر فصل کی ضرورت ہوتی ہے اور اگر کھاد جیسی بنیادی ضرورت کی قیمت بڑھے گی تو اِس سے فصل کی مجموعی لاگت میں بھی اضافہ ہوگا لیکن اِس صورتحال کا انتہائی منفی پہلو یہ ہے کہ چھوٹے کاشتکار اِس قدر مالی سکت نہیں رکھتے کہ وہ مہنگی کھاد خرید سکیں اور یہی وجہ ہے کہ گزشتہ چند برس سے زرخیز (قابل کاشت) زرعی اراضی رہائشی کالونیوں میں تبدیل ہو رہی ہے۔ کاشتکار بار بار خبردار کر رہے ہیں کہ اگر کھاد کی قیمتیں ’اعتدال‘ پر نہ آئیں اور حکومت نے مہنگی کھاد خریدنے کیلئے کاشتکاروں کی مدد کرتے ہوئے سبسڈی کا اعلان نہ کیا تو اِس سے زراعت کا نقصان ہوگا اور یہ شعبہ کاروباری و تجارتی لحاظ سے قابل عمل نہیں رہے گا۔
جن علاقوں میں رواں سیزن کیلئے چاول کی شجرکاری شروع ہونے والی ہے وہ زیادہ تشویش کا شکار ہیں جبکہ جولائی اگست میں بوئی جانے والی مکئی کے کاشتکاروں کی نظریں کھاد مارکیٹ پر جمی ہوئی ہیں جہاں قیمتوں کو قرار نہیں اور جہاں ہر دن کھاد کی ایک نئی قیمت کے ساتھ طلوع ہوتا ہے۔ چاول اور مکئی کے علاؤہ گندم کے کاشتکار بھی کھاد کی قیمتوں سے نقصان اُٹھائیں گے۔ حکومت کی جانب سے گندم کی امدادی قیمت بائیس سو روپے فی من فصل کے بنیادی اخراجات کے حوالے سے بھی ناکافی ہیں کیونکہ کھاد و دیگر ضروریات اور بوائی سے کٹائی کے مراحل میں مزدوری لاگت کے اضافے کے بعد فی من گندم کی پیداواری لاگت ”تین ہزار روپے“ تک جا پہنچتی ہے۔ اگر حکومت کے لئے مہنگائی بڑھنے کی مجموعی صورتحال پر قابو پانا ممکن نہیں تو پہلی ترجیح زرعی شعبہ ہونا چاہئے‘ جو صنعتوں کے مقابلے نسبتاً زیادہ اور پائیدار روزگار کی فراہمی کا ذریعہ ہے۔ قابل ذکر ہے کہ پاکستان کی معیشت اور اس کی ترقی کیلئے زراعت کلیدی کردار ادا کرتی ہے اور 48 فیصد مزدور براہ راست زراعت سے وابستہ ہیں جبکہ یہی آبادی کے بڑے حصے کی زندگی یا آمدنی کا بنیادی ذریعہ بھی ہے اور تقریبا 70فیصد آبادی کا تعلق براہ راست یا بالواسطہ زراعت سے ہے۔ زراعت روزگار کے علاوہ خوراک کا بڑا ذریعہ بھی ہے اور زراعت ہی صنعتی شعبے کے لئے سستے خام مال کی فراہمی ممکن بناتا ہے۔ ملک کی مقامی پیداواری صلاحیت اور آمدن (جی ڈی پی) میں زرعی شعبے سے پچیس فیصد وسائل حاصل ہوتے ہیں جو کسی بھی دوسرے شعبے کی حصہ داری سے نسبتاً زیادہ ہے لیکن زراعت پر دیگر شعبوں کو ترجیح دی جاتی ہے کیونکہ قومی اور صوبائی فیصلہ سازوں میں مزدور کسان اور چھوٹے کاشتکاروں کے نمائندے شامل نہیں ہوتے اگرچہ یہ آبادی کے لحاظ سے دیگر سبھی طبقات سے زیادہ ہیں لیکن متحد نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کاشتکاروں‘ کسانوں اور مزدوروں کے مسائل و مشکلات مطالبات سے مطالبات اور احتجاج بعداز احتجاج کی صورت ظاہر ہوتے ہیں لیکن اِنہیں خاطرخواہ اہمیت (شنوائی) نہیں مل رہی!۔