شاعر معید رشیدی نے زمانے اور اِنسان کے اِرتقائی مراحل کا اِحاطہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”لمحے لمحے سے بنی ہے یہ زمانے کی کتاب …… نقطہ نقطہ یہاں صدیوں کا سفر لگتا ہے۔“ مذکور نقطہ‘ نقطہ سفر کا ہر قدم مکالمے (بات چیت‘ تبادلہئ خیال اور سوال و اِظہار کی آزادی) کی رہنمائی میں طے ہو تو مقصد و منزل شعوری ہوتی ہے اور یہ بات بھی مسلمہ ہے کہ اِس کاوش کا حاصل گردوپیش کا ’تنقیدی جائزہ‘ اور اِس ’تنقید‘ سے حاصل ہونے والے تجربات ہوتے ہیں لیکن اَلمیہ (مشکل) یہ ہے کہ ’تنقید‘ اور اِس کی اہمیت کے حوالے سے درس و تدریس اور سماجی سطح پر بالعموم بہت کم غور و خوض کیا جاتا ہے۔ اِس حقیقت کو سمجھنے کے بغیر چارہ نہیں رہا کہ 1: مختلف تجربوں کی تمیز اور ان کی قدرو قیمت کا اندازہ لگانے کا نام تنقید ہے۔ 2: تنقید پہلے اور ہمیشہ قوت حاسہ سے وابستہ رہی ہے۔ الفاظ کی صحیح تمیز اور ان سے تیزی اور ٹھیک ٹھیک متاثر ہونا تنقید ہے۔ 3: تنقید ہمیشہ بامقصد ہوتی ہے جو فنی کارناموں کی تشریح اور مذاق کی درستگی کا عمل ہے۔ 4: صحیح معنوں میں تنقید فنی تحریک کا جزو ہے۔ یہ ’آرٹ‘ کی اپنے اوپر ملوکیت (حاکمیت) ہے جیسا کہ ’آرٹ‘ زندگی کا شعور ہے بالکل اِسی طرح تنقید آرٹ کا شعور ہے اور 5: تنقید ادبی مذاق کا منطقی عمل ہے‘ ادب کی جانچ پرکھ کے بعد یہ دیکھنا کہ وہ کیا ہے اور اِسی وجہ سے ادبی گلشن کی فضا ہمیشہ معطر‘ خوشگوار و تروتازہ رہتی ہے۔خیبرپختونخوا کے ضلع دیر کا گاؤں بونیر ’گندھارا تہذہب‘ کا حصہ رہا ہے۔ سیاحتی مقامات قادر نگر‘ کلیل‘ ایلم‘ سر ملنگ‘ گوکند‘ چغرزی‘ امازئی‘ جبہ چوہان‘ مہابن‘ پیر بابا‘ شہیدا سر‘ مالکا اور امازئی کے مہابن و دیگر ایسے پُرکشش مقامات (ٹورسٹ ریزورٹس) کو خاطرخواہ ترقی نہیں دی گئی۔ بونیر کی وجہئ شہرت یہاں کی سرسبزوشاداب وادیاں ہیں جو سارا سال سرد لیکن نسبتاً خشک و خوشگوار رہتی ہیں لیکن اِس دیہی علاقے کی وجہئ شہرت میں حالیہ اِضافہ ”اپنی مدد آپ کے تحت“ بنایا گیا ایک ایسا غیرروایتی کتب خانہ ہے جسے سوال اور مکالمہ (تنقید) کی غرض سے ترتیب و تشکیل دیا گیا ہے اور یہاں ہر دوسرے اتوار (پندرہ روزہ ترتیب سے) سوال و جواب کی نشستیں ہوتی ہیں جس میں علمی اِدبی سماجی و سیاسی (ہر قسم کے) موضوعات کا تنقیدی جائزہ لیا جاتا ہے۔ ’فانوس لائبریری‘ اِس لحاظ سے منفرد ہے کہ یہاں سوال کرنے اور سوچنے کی ممانعت نہیں اور سوال پوچھنے کی حوصلہ اَفزائی کی جاتی ہے۔ عموماً لائبریریوں میں خاموشی ہوتی ہے لیکن سوالات کی پرورش کا بیڑا اُٹھانے والوں نے لائبریری کو ایک نیا تعارف دیا ہے اور اگرچہ یہ تصور نیا نہیں بلکہ یورپ و امریکہ میں ایسے کتب خانے ملتے ہیں جہاں طے شدہ موضوعات‘ عنوانات اور کتابوں پر تبصرے سے متعلق نشستوں کا باقاعدگی سے اِنعقاد ہوتا ہے اور سوال جواب کے ذریعے مختلف موضوعات کے حوالے سے کھل کر تبادلہ خیال کیا جاتا ہے جس میں ہر مکتبہ فکر کے لوگ شریک ہوتے ہیں۔لیکن شاید بونیر کی ’فانوس لائبریری‘ اِس لحاظ سے منفرد ہے کہ یہاں موضوعات طے شدہ نہیں ہوتے اور نہ ہی تمام سوالات کسی ایک موضوع سے متعلق ہوتے ہیں۔ درحقیقت کسی معاشرے میں سوال کی جرأت پیدا کرنے سے زیادہ بڑا ’سماجی انقلاب‘ کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا۔ عموماً اساتذہ سوال کرنے پر طلاب کو مارتے ہیں اِسی طرح گھر میں سوال کرنے پر ڈانٹ یا مار پڑتی ہے لیکن کتب خانے کی آڑ میں اختلافی نکتہئ نظر کو سمجھنے اور اپنے نکتہئ نظر کو بیان کرنے کے لئے مناظرے کی بجائے مکالمہ کی حوصلہ افزائی کی ضرورت ایک عرصے سے محسوس کی جا رہی تھی اور اِس کمی کو پورا کرنے کی جانب ’فانوس لائبریری‘ نے خیبرپختونخوا کے دیگر اضلاع اور پورے ملک کی توجہ دلائی ہے۔ علمی اَدبی محافل ’انجمن ستائش باہمی‘ کے اصول (محور) پر کام کرتی ہیں اور کسی ایک مقرر اپنے علم و دانش کی گرد جھاڑ کر چلتا بنتا ہے۔ دوسری اہم بات سوال نہ کرنے عادت‘ جھجک‘ شرمیلا پن اور موافق ماحول کا نہ ہونا ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں سوال کو ہمیشہ تنقید کی نظر سے دیکھا جائے اور تنقید کے عمل کو مخالفت سمجھا جائے وہاں 3 ہزار کتب پر مشتمل فانوس لائبریری تازہ ہوا کا جھونکا ہے اور اِس منفرد تصور کو دیگر اضلاع میں بھی متعارف کروانا چاہئے۔بونیر (Buner) صوبہ خیبرپختونخوا‘ ڈویژن مالاکنڈ اور ضلع دیر کا حصہ 6 تحصیلوں (ڈوگر‘ گگرا‘ خدوخیل‘ مندنر‘ چغرزئی‘ گدے زئی/سالار زئی) پر مشتمل پشاور سے ڈیرھ سو کلومیٹر کے فاصلے پر ہے‘1865مربع کلومیٹر پر پھیلا یہ سرسبزوشاداب دیہی علاقہ جنوب میں ’ضلع صوابی‘ جبکہ شمال میں ’ضلع سوات‘ سے منسلک ہے اور 1991ء سے قبل ضلع سوات کی تحصیل کا درجہ رکھتا تھا۔ بونیر کی قریب 10لاکھ آبادی میں 52فیصد خواتین ہیں۔ آبادی کی سالانہ شرح نمو 3.05 فیصد ہے۔ صوبائی حکومت کے مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ 17سال میں بونیر کی آبادی میں 73فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ سال 2018ء کے عام انتخابات میں بونیر سے قومی اسمبلی کی ایک نشست NA-9 پر تحریک انصاف جبکہ صوبائی اسمبلی کی تین نشستوں (پی کے بیس اور پی کے اکیس) پر تحریک انصاف جبکہ ’پی کے اکیس‘ سے عوامی نیشنل پارٹی کے نامزد اُمیدوار کامیاب ہوئے۔کیا ’فانوس لائبریری‘ بونیر کے مسائل و پسماندگی دور کرنے اور یہاں شرح خواندگی میں اضافے یعنی تعلیم کے فروغ میں بھی کردار ادا کرے گی؟ کیا فانوس لائبریری سیاسی شعور بیدار کرنے میں اپنی غیرجانبداری کا توازن برقرار رکھ پائیگی۔ وفاقی ادارہئ شماریات (سال 2017ء کی مردم شماری) کے مطابق بونیر کی مجموعی شرح خواندگی 46.84 فیصد ہے جس میں مرد 65.10فیصد جبکہ 29.40 فیصد خواتین خواندہ ہیں یقینا بونیر میں مردوخواتین کی خواندگی اور علاقے کی پسماندگی جیسے موضوعات پر نسبتاً زیادہ بات ہونی چاہئے۔ یہ سوال و جواب کا جو سلسلہ اس لائبریری کی صورت میں شروع ہوا ہے دراصل یہ تربیت کا ایک طریقہ ہے جس کے ذریعے رویوں میں تبدیلی آتی ہے اور معاشرے میں مثبت رجحانات پروان چڑھتے ہیں یہ وہ عمل ہے جس کو ملک کے ہر حصے میں جاری رہنا چاہئے اور اس بہترین مثال کی پیروی کی جائے تو یہ ایک انقلابی قدم ثابت ہو سکتا ہے۔