صحت کارڈ: ایک اور سنگ میل

خیبرپختونخوا کے چھ لاکھ سرکاری ملازمین کیلئے صوبائی حکومت نے علاج معالجے کی خصوصی سہولیات فراہم کرنے کی منظوری دی ہے جس کے تحت نہ عوام کی نسبت نہ صرف زیادہ امراض کا مفت علاج معالجہ ممکن ہوگا بلکہ سرکاری ملازمین علاج کی اُن نسبتاً زیادہ بہتر و جدید سہولیات سے بھی استفادہ کر سکیں گے جو عام آدمی کو میسر نہیں ہیں‘ ذہن نشین رہے کہ صحت کارڈ پلس کے تحت 77 لاکھ خاندانوں کو مفت علاج کی سہولت میسر ہے اور یہ خیبرپختونخوا حکومت کے کارہائے نمایاں میں شامل ہے‘ مالی سال 2022-23ء کے بجٹ میں سرکاری ملازمین کو ’خصوصی مراعات یافتہ طبقے‘ کا درجہ دیتے ہوئے اُنہیں خصوصی علاج کی سہولیات جلد حاصل ہو جائیں گی کیونکہ وزیراعلیٰ محمود خان پہلے ہی اِس حکمت ِعملی کی منظوری دے چکے ہیں اور صوبائی بجٹ میں اِس مقصد کیلئے مالی وسائل بھی مختص کر دیئے گئے ہیں۔ سرکاری ملازمین کیلئے الگ ’ہیلتھ انشورنس‘ المعروف ’ہیلتھ کارڈ‘ کے اجرأ کیلئے صوبائی حکومت نے بیمہ کمپنیوں سے پیشکشیں طلب کی تھیں جس کے جواب میں آخری تاریخ (بیس جون) تک 6 کمپنیوں نے اپنی اپنی خدمات پیش کی ہیں اور اِن چھ میں سے کسی ایک بیمہ کمپنی کا انتخاب کیا جائے گا۔صحت کارڈ کے موجودہ انتظامی ڈھانچے سے متعلق سرکاری ملازمین کے تحفظات تھے اور وہ صحت کارڈ کیلئے مقررہ  ہسپتالوں سے مفت علاج معالجے یا لیبارٹری ٹیسٹنگ کروانے سے ہچکچاتے تھے کیونکہ صحت کارڈ کے تحت علاج معالجہ بنیادی سہولیات کیساتھ فراہم کیا جاتا ہے اور اِس سے استفادہ کرنیوالے مریض کو کسی من پسند ہسپتال کے وارڈ میں رہنا پڑتا ہے۔
 صوبائی حکومت آئندہ چند ہفتوں میں سرکاری ملازمین کیلئے اِس اضافی سہولت کی فراہمی یقینی بنا دیگی کہ وہ وارڈ کی بجائے ہسپتال میں قیام کے دوران خصوصی  کمروں کا استعمال کریں‘سرکاری ملازمین کو دی جانے والی مراعات میں نہ صرف ہسپتالوں کے نجی کمرے بلکہ ایمبولینسیں اور دیگر سہولیات سے استفادہ بھی شامل ہوگا جو صحت کارڈ کے عمومی صارفین کو نہیں دیا جاتا۔ یوں صحت کارڈ کے ’ٹاپ اپ پیکج‘ قریب چھ لاکھ سرکاری ملازمین کو ’ایگزیکٹو سروسز‘ میسر آئیں گی لیکن سرکاری ملازمین کو حاصل یہ مراعات اُن کی ملازمتی حیثیت کے مطابق ہوگی اور سرکاری ملازمین کو اِن اضافی سہولیات کیلئے تنخواہوں سے واجبی ادائیگی بھی کرنا پڑے گی‘ حکمت عملی کے تحت سرکاری ملازمین کو اِس بات کا اختیار دیا جائے گا کہ وہ ’صحت کارڈ‘ کے ’ٹپ ٹاپ پیکج‘ کو حاصل کرنا چاہتے ہیں یا نہیں۔ اگر وہ ’ٹپ ٹاپ پیکج‘ کا انتخاب کریں تو 10 لاکھ روپے سالانہ کی حد برقرار رکھتے ہوئے اضافی خصوصی سہولیات کے لئے حکومت منتخب بیمہ کمپنی کو اضافی پریمیم ادا کرے گی جس کے تحت ایگزیکٹو سروسزملے گی لیکن اگر کوئی سرکاری ملازم ’ٹپ ٹاپ پیکیج‘ کی سہولت سے فائدہ نہ اُٹھانا چاہے تو ایسی صورت میں وہ ’صحت کارڈ‘ کے تحت عام آدمی کی طرح حاصل 10 لاکھ روپے تک علاج معالجے کی عمومی سہولیات ہی تک محدود رہے گا۔
 ذہن نشین رہے کہ گزشتہ ماہ صوبائی اسمبلی اراکین نے ”خیبر پختونخوا یونیورسل ہیلتھ کوریج ایکٹ“ نامی قانون کی منظوری دی تھی جس کی بدولت یہ پروگرام اب مستقل حیثیت و خصوصیات کا حامل ہو چکا ہے جسے قانونی حیثیت دینے کا درپردہ مقصد و تصور یہ ہے کہ مستقبل کی کوئی بھی حکومت سیاسی وجوہات کی بنا پر صحت کارڈ کو ختم نہ کرے۔ صحت کارڈ کے تحت گردے کے امراض‘ صفائی اور پیوند کاری جیسے پیچیدہ امراض کے لئے ’پلس پروگرام‘ شروع کیا گیا تھا جس میں دس لاکھ سالانہ کی مقررہ حد کو چودہ لاکھ روپے سالانہ تک بڑھا دیا گیا تھا اور اِس حکمت عملی سے اب تک 60 مریض فائدہ اُٹھا چکے ہیں‘ علاؤہ ازیں جگر کی پیوند کاری کو بھی صحت کارڈ میں شامل کرتے ہوئے پچاس لاکھ روپے سالانہ تک علاج معالجے کے اخراجات کی اجازت دی گئی اور جگر کی پیوند کاری سے 15 افراد فائدہ اُٹھا چکے ہیں جو اپنی ذات میں انقلابی اقدام ہے۔ جگر کی پیوند کاری کیلئے جراحت کروانے والا زیادہ تر مریضوں کا تعلق آمدنی کے لحاظ سے انتہائی غریب طبقات سے ہے‘ جن کیلئے ایسے پیچیدہ امراض کا علاج اپنے مالی وسائل سے کروانا ممکن نہیں ہوتا لیکن اب صورتحال قطعی طور پر تبدیل ہے اور خیبرپختونخوا کا ہر خاندان‘ دس لاکھ روپے سالانہ تک کے علاج معالجے کی یکساں  سہولیات سے استفادہ کر سکتا ہے۔
 صحت کارڈ کے تحت خیبرپختونخوا کے بارہ لاکھ سے زائد مریضوں کو مفت علاج معالجے کی سہولیات فراہم کی جا چکی ہیں جبکہ اِس مقصد کیلئے آئندہ مالی سال کیلئے ترقیاتی پروگرام کے لئے پچیس ارب روپے مختص کئے گئے ہیں جبکہ ختم ہونے والی مالی سال میں خیبرپختونخوا حکومت نے صحت کارڈ کیلئے بائیس ارب روپے مختص کئے تھے‘ صحت کارڈ میں آبادی بڑھنے کی شرح کیساتھ ہر سال اضافہ کیا جاتا ہے اور خیبرپختونخوا کے رہائشی صرف اپنے صوبے ہی میں نہیں بلکہ اندرون ملک 1 ہزار 115 سرکاری و نجی منظورشدہ ہسپتالوں سے عمومی و خصوصی امراض کا مفت علاج معالجہ کروا سکتے ہیں۔ صحت کارڈ کی کامیابی اور مقبولیت میں دو محرکات کا بڑا عمل دخل ہے۔ ایک تو علاج معالجے کو غیرضروری کاغذی کاروائی سے الگ رکھا گیا ہے اور کسی شخص کو مفت علاج کروانے کیلئے صرف اپنا قومی شناختی کارڈ  دکھانا ہوتی ہے جبکہ دوسرا محرک یہ ہے کہ ہر پینل ہسپتال میں صحت کارڈ کے تحت علاج کروانے والوں کیلئے ’سہولت مراکز‘ قائم کئے گئے ہیں تاکہ مریضوں اور اُن کے تیمارداروں کو تکلیف و مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔