سیاحت اور خیبرپختونخوا

بلاشبہ وطن عزیز میں خیبرپختونخوا کویہ اعزاز حاصل ہے کہ سیاحت کیلئے یہاں سب سے زیادہ مواقع اور سب سے زیادہ قدرتی مظاہر موجود ہیں دریاؤں،جنگلات،ہری بھری چراگاہوں،برف پوش چوٹیوں سے لے کر لق ودق صحراؤں تک ہر قسم کی خوبصورتی اور قدرت کے تحفے موجود ہیں گویا اگر تھوڑی سے مزید محنت کی جائے تو صرف ملکی اورمقامی سیاحوں کے ذریعہ ہی صوبہ کو سیاحت کامرکز بناکر روزگار کے ان گنت مواقع فراہم کیے جاسکتے ہیں ایک جائزے کے مطابق ہر سال صرف گلیات ناران کاغان اور کمراٹ سے تقریبا300 ملین ڈالر ریونیو حاصل ہوتا ہے اس وقت خیبرپختونخواسیاحت کے معاملہ میں پورے ملک میں سب سے آگے ہے کیونکہ اوّل تو یہاں سیاحتی مقامات کی تعداد ملک کے دیگر علاقوں کی نسبت کہیں زیادہ ہے اوردوم یہاں پر سیاحوں کیلئے ماحول بھی بہت بہترہے جس کااندازہ سیاحوں کو موسم سرماکی طوفانی برفبار ی کے دوران بخوبی ہوچکاہے کہ جب مری میں سیاحوں پر قیامت گزررہی تھی اور وہاں کاہوٹل مافیا اس پر بھی منافع خور ی میں مصروف تھا عین اس وقت گلیات میں سیاحوں کو جو قسم کی سہولیات دی گئیں۔
 وہ کم از کم موقع پر موجودسیاحوں کو ہمیشہ یادرہیں ویسے بھی مری کے مقابلہ میں اس وقت گلیات سیاحوں کیلئے پسندیدہ ترین مقام بن چکاہے جس کی وجہ وہاں قدرتی ماحول کو اپنی اصل حالت میں برقرار رکھنے میں کامیابی ہے گلیات ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے کردار کو نظر انداز نہیں کیاجاسکتا جن سے علاقہ میں پختہ تعمیرات کو کامیابی کیساتھ قابو میں رکھاہواہے دوسری طرف پی ٹی آئی کی گزشتہ حکومت کے ساتھ ساتھ موجودہ صوبائی حکومت نے بھی سیاحتی مقامات تک آسان رسائی کیلئے متعدد اقدامات کئے ہیں سیاحتی مقامات کو ایک دوسرے سے مربوط کرنے کے لئے رابطہ سڑکوں کی تعمیر کاکام کامیابی سے جاری رکھا گیاہے، ان رابطہ سڑکوں کی تعمیر کے بعد ہمارا صوبہ پاکستان کا سیاحت کے حوالہ سے سب سے بڑا صوبہ بن جائیگا اور سیاحت کے شعبہ کو باقاعدہ ایک صنعت کادرجہ بھی مل جائیگا۔ صوبائی حکومت سیاحتی مقامات کو ملکی وغیر ملکی سیاحوں کی توجہ حاصل کرنے کیلئے پرکشش بنارہی ہے سیاحتی مقامات میں ہوٹلز بنائے جارہے ہیں، سیاحوں کے تحفظ کا بطور خاص خیال رکھا جارہا ہے، ان کے سہولت کے لئے سنجیدگی سے کام ہورہا ہے جس سے نہ صرف صوبہ کی آمدن میں اضافہ ممکن ہوگابلکہ روزگار کے ان گنت مواقع بھی مہیا ہوسکیں گے۔
صوبائی حکومت کی طرف سے صوبے کے سیاحتی مقامات کی سیر کرنے والے ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کی سہولت کیلئے تمام چھوٹے بڑے سیاحتی مقامات کی جیو میپنگ اور پروفائلنگ کا عمل مکمل کرکے گوگل میپ پر ڈال دیا گیا ہے اسی طرح سیاحتی مقامات میں ہوٹلز، ریسٹ ہاؤسز، کیمپنگ پاڈزاور دیگر ضروری خدمات اور سہولیات کی تفاصیل کی آن لائن فراہمی کیلئے ویب سائٹ اور موبائل ایپلی کیشن تیار کرلئے گئے ہیں جن کی مدد سے سیاحوں کو درکار سہولیات اور خدمات کی فراہمی سے متعلق معلومات آن لائن دستیاب ہوگئی ہیں عالمی بینک کی معاونت سے صوبے میں اینٹگریٹڈ ٹوارزم زونز کے قیام کے سلسلے میں ٹھنڈیانی ایبٹ آباد اور مانکیال سوات کو اینٹگریٹڈ ٹوارزم زونز بنانے پر بھی پیشرفت جاری ہے فیڈرل پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کے تحت صوبے کے پانچ مختلف سیاحتی مقامات پر ریزورٹس کی تعمیر کامنصوبہ منظور ہوچکا ہے ان پانچ سیاحتی مقامات میں تخت سلیمان، گرم چشمہ، شیخ بدین، شولوزان اور تخت بھائی شامل ہیں مختلف آبشاروں کی نشاندہی بھی کی گئی ہے اسی طرح چھوٹے ڈیموں پکنک پوانئٹس بنائے جائینگے ابتدائی طور پر پانچ ڈیموں پر پکنک پوائنٹس بنانے کا فیصلہ ہوا ہے جن میں صوابی میں کنڈ ڈیم، نوشہرہ میں جلوزئی ڈیم، کوہاٹ میں تھاندہ ڈیم، ہری پور میں چتری ڈیم اور ایبٹ آباد میں جانگڑا ڈیم شامل ہیں۔ 
ان مقامات پر سیاحوں کو ریسٹورنٹ اور پارکنگ پر مشتمل مختلف سہولیات فراہم کی جائے گی۔ اسی طرح خیبر پختونخوا کی حکومت نے سیاحتی مقاصد کیلئے بس سروس کی بھی منظوری دی ہے خیبر پختونخوا کی حکومت نے ضلع اپر دیر کمراٹ میں دنیا کے بڑے اور اونچے کیبل کار پراجیکٹ کی بھی منظوری دی ہے جس کی لمبائی 14 کلومیٹر ہے اور اس پراجیکٹ کو 32 ارب روپوں کی لاگت آئے گی اور پانچ ماہ میں مکمل کیا جائے گا اس پراجیکٹ کے ذریعے کمراٹ درہ کو لور چترال مداکلشٹ درہ کے ساتھ منسلک کیا جائے گا اگر گلیات کی بات کریں تو سابق ڈی جی رضا علی حبیب اور ان کیساتھ ساتھ ڈائریکٹر ٹیکنیکل زاہد کاظمی کی خصوصی دلچسپی کی بدولت علاقہ میں پھلوں کے باغات لگائے جارہے ہیں اور اس سال بھی جی ڈی اے کی طرف سے علاقہ میں پودے لگانے کی مہم جاری رکھنے کاامکان ہے جس سے گلیات کی خوبصورتی دوچند بلکہ سہ چند ہوجائے گی جبکہ وادی کاغان میں پھولوں کی نرسریاں قائم کرکے خوبصورتی اورروزگار کو فروغ دینے کامنصوبہ ہے جس پر اگر بروقت عملد رآمد کیاگیا تو سیاحوں کی دلکشی کاسامان میسر آسکے گا اس سلسلہ میں کائیٹ کے نام سے جاری پراجیکٹ کی خدمات کو بھی نظر اندازنہیں کیاجاسکتاہے پراجیکٹ ڈائریکٹر توصیف خالد اور ان کی ٹیم نے مختلف منصوبوں کے ذیعہ سیاحت کے فروغ کیلئے جوکام شروع کیاہے ہواہے اس کے اثرات رفتہ رفتہ سامنے آتے جارہے ہیں اگر صرف اس ایک شعبہ کو ہی بھرپور حکومتی سرپرستی ملتی رہی تو آنیوالے چندسالوں میں صوبہ کی معیشت کوپیروں پرکھڑا کرنے میں یہی ایک شعبہ بنیادی کردار ادا کرنے کے قابل ہوجائے گا۔