ترقیاتی اعشاریئے

کسی ملک کی ترقی کے بارے میں رائے قائم کرنے کے لئے 2 بنیادی اصولوں (ترقیاتی اعشارئیوں) کو مدنظر رکھتے (پرکھتے) ہوئے رائے قائم کی جاتی ہے۔ پہلا اعشاریہ وہاں کی انسانی ترقی کی صورتحال (ہیومن ڈویلپمنٹ انڈکس) اور دوسرا اعشاریہ وہاں پر مجموعی زیراستعمال و دستیاب توانائی (ٹوٹل پرائمری انرجی سپلائی) ہوتی ہے لیکن اگر صرف زیراستعمال توانائی ہی کی صورتحال سے متعلق اعدادوشمار دستیاب ہوں تو انسانی ترقی بھی عیاں ہو جاتی ہے۔ پاکستان براعظم ایشیا کے ممالک میں شامل ہے۔ اِن ممالک کے مقابلے پاکستان میں سب سے کم فی کس توانائی (بجلی‘ گیس و پیٹرولیم) دستیاب ہے اور یہی وجہ ہے کہ انسانی ترقی اور معاشی شرح نمو کے لحاظ سے بھی پاکستان خطے کے ممالک سے پیچھے ہے یعنی پاکستان میں عوام کا رہن سہن ہمسایہ و دیگر ممالک کے مقابلے کم تر ہے۔حالیہ اقتصادی جائزہ (سال 2021-22ء) میں جاری کردہ اعدادوشمار سے یہ نتیجہ اخذ کرنا قطعی مشکل نہیں کہ پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی کے تناسب سے توانائی کے مقامی ذرائع یعنی پیداواری وسائل میں خاطرخواہ اضافہ نہیں ہو رہا بلکہ پہلے سے موجود پیداواری وسائل بھی کم ہو رہے ہیں۔ اقتصادی جائزے کے مطابق ”پن بجلی (پانی سے بجلی کی پیداوار) جو پہلے ’65 فیصد‘ تھی اب اِس کا تناسب (حصہ داری) کم ہو کر 23.7 فیصد رہ گئی ہے جبکہ بجلی کی پیداوار کیلئے درآمدی وسائل (فاسل فیول) پر انحصار بڑھتے ہوئے 61فیصد تک جا پہنچا ہے۔
 جوہری توانائی (نیوکلیئر انرجی) سے 12.35 فیصد بجلی حاصل ہوتی ہے اور توانائی کے متبادل ذرائع (رینیوایبل انرجی) سے 3.02 فیصد بجلی حاصل ہو رہی ہے۔“ ذہن نشین رہے کہ پاکستان جب سال 2022ء میں داخل ہوا تھا اُس وقت مجموعی ”گردشی قرض“ 280 ارب ڈالر تھا اور اِس قرض کا حجم کس قدر بڑا ہے اِس بات کا اندازہ ملک کی مجموعی خام پیداواری آمدنی (گراس ڈومیسٹک پراڈکٹ) سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگر پاکستان اپنے گردشی قرض سے چھٹکارا حاصل کرے تو اِسے اپنے ہر 100 روپے میں سے 94 روپے گردشی قرض کی ادائیگی کے لئے خرچ کرنا پڑے گا جس کا حجم پاکستانی روپوں میں 2500 ارب روپے سے تجاوز کر چکا ہے۔ گردشی قرض کا محرک صرف مہنگے داموں بجلی کی پیداوار اور اِس کی سستے داموں فروخت ہی نہیں بلکہ بجلی کی چوری بھی ہے سال 2014ء تک پاکستان میں بجلی کی پیداوار قومی ضرورت کے مطابق تھی اور سب کچھ معمول کے مطابق چل رہا تھا کہ بجلی کی پیداوار اور مانگ ساتھ ساتھ چل رہے تھے لیکن یہ صورتحال مصنوعی تھی کیونکہ نوے کی دہائی میں جب بڑھتی ہوئی آبادی اور مستقبل کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے قومی توانائی حکمت عملی (انرجی پالیسی) بنائی گئی تو اِس میں ’پن بجلی‘ کے منصوبوں کی توسیع اور نئے پن بجلی گھر بنانے جیسی وسعت کی بجائے نجی اور کرائے کے بجلی گھروں سے بجلی خریدنے کا فیصلہ کیا گیا۔
 1994ء کی ”پاور پالیسی“ میں بجلی کے خودمختار نجی بجلی گھروں (IPPs) کے لئے خصوصی مراعات کا اعلان کیا گیا جن میں ’کیپسٹی پیمنٹ چارجز‘ جیسا انتہائی متنازعہ فائدہ بھی شامل تھا یعنی کسی نجی بجلی گھر کی کل پیداواری صلاحیت کے مطابق اُسے قیمت کی ادائیگی کرنے کی منظوری دی گئی اِس طرح چاہے حکومت بجلی خریدے یا نہ خریدے لیکن وہ نجی بجلی گھروں کو اُن کی مجموعی پیداواری صلاحیت کے تناسب سے ادائیگی کرنے لگی اور یہ خزانے پر اضافی بوجھ بنا۔ دوسری متنازعہ مراعات یہ تھی کہ نجی بجلی گھروں کو ہمیشہ (لائف ٹائم) کیلئے ’کارپوریٹ انکم ٹیکس‘ سے استثنیٰ دے دیا گیا یعنی نجی بجلی گھروں کے مالکان جو منافع کما رہے ہیں اُس پر حسب آمدنی انکم ٹیکس ادا نہیں کرتے کیونکہ حکومت نے اُنہیں صنعتی و کاروباری طبقے کے لئے مخصوص کارپوریٹ ٹیکس سے استثنیٰ دے رکھا ہے!شنید ہے کہ موجودہ حکومت ملک کو توانائی بحران سے نکالنے کے لئے کثیر الجہتی حکمت عملی پر عمل درآمد کر رہی ہے اور اگر ہم گزشتہ چار برس کے دوران بجلی کے شعبے میں کی جانے والی ڈھانچہ جاتی اصلاحات کا جائزہ لیں تو ”توانائی پالیسی 2021ء“ کی منظوری اور ”قابل تجدید توانائی پالیسی 2020ء“ ایسے سنگ میل دکھائی دیتے ہیں‘جنہیں عملی جامہ پہنا کر درپیش توانائی بحران کی شدت میں بڑی حد تک کمی لائی جا سکتی ہے۔
 قومی توانائی پالیسی کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ بجلی کی پیداواری لاگت کم سے کم کی جائے اور اِس مقصد کے لئے وسیع بنیادوں پر مشاورتی عمل جاری ہے۔ مزید برآں کم سے کم لاگت کے اصول کی بنیاد پر سال 2021ء میں صوبوں کے درمیان اِس بات پر اتفاق رائے قائم ہوا کہ اگلے دس سال کے لئے اشاریہ پیداواری صلاحیت میں توسیع کی جائے گی۔ سبسڈی اصلاحات‘ بجلی کی اصل قیمت اور مکمل لاگت کی صارفین سے وصولی‘ بجلی کے پسماندہ صارفین کے مفادات کا تحفظ اور دیگر بہتر مالی حیثیت رکھنے والے صارفین کی سبسڈی میں بتدریج کمی کی وفاقی کابینہ منظوری دے چکی ہے علاؤہ ازیں بجلی کی قیمت کے تعین کا اختیار حکومت سے لے کر منتظم و نگران ادارے (ریگولیٹر) کو زیادہ بااختیار بنانا بھی ’انرجی پالیسی‘ کا حصہ ہے۔ محصولات کم کرنے کے لئے زیادہ تر ’آئی پی پیز‘ اور تمام سرکاری پاور پلانٹس کے لئے ایکویٹی پر منافع کی شرح میں بھی کمی لائی گئی ہے۔ اسی طرح ’آئی پی پی‘ کے زیادہ تر کیپیسٹی چارجز جو کہ امریکی ڈالرز میں ادا کئے جاتے تھے اُنہیں پاکستانی روپے میں منتقل کر دیا گیا ہے اور فی ڈالر کی زیادہ سے زیادہ حد 168 روپے مقرر کی گئی ہے۔ گیس سے بننے والی بجلی کی قیمت‘ گیس ریگولیٹر (منتظم و نگران ادارے) کی خودمختاری سے جوڑ دی گئی ہے اور درآمدی گیس کی لاگت (گیس کے وزن کے مطابق اوسط لاگت) کی وصولی سے متعلق ایک قانون کی منظوری دی گئی ہے۔ یہ سبھی اقدامات عمل درآمد کے مختلف مراحل سے گزر رہے ہیں۔ فیصلہ سازوں کو اِس حقیقت کا ادراک کرنا ہوگا کہ ’قومی ترقی کے اعشارئیوں‘ میں اُس وقت تک بہتری ممکن نہیں جب تک توانائی کے سستے اور ایسے پائیدار ممکنہ ذرائع کو توجہ نہیں دی جاتی جن کے وسائل مقامی ہیں۔