ڈیجیٹل جمہوریت

ڈیجیٹل اسلوب سے استفادہ کئے بغیر جمہوریت کا عروج‘ مضبوطی و استحکام ممکن نہیں اور اِسی ایک وسیلے سے نوجوانوں کو زیادہ بااختیار بنانے کا ہدف بھی حاصل کیا جا سکتا ہے لیکن پاکستان میں ڈیجیٹل جمہوریت کا سفر نہایت ہی سست روی سے آگے بڑھ رہا جس کی وجہ سے سفر طویلاور منزل اوجھل ہے۔ سب سے پہلی اور سب سے اہم بات یہ ’ڈیجیٹل‘ کے تصوراور اِس تصور کے بنیادی ڈھانچے سے متعلق ہے کہ ڈیجیٹل اسلوب طبقات کی نفی کرتا ہے۔ اِس سے عدم مساوات کا خاتمہ ہوتا ہے‘ ڈیجیٹل وسائل سے استفادہ بنا انٹرنیٹ ممکن نہیں جبکہ اِس کی ترقی کے لئے ’براڈ بینڈ انٹرنیٹ‘ تک رسائی ضروری ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان میں صرف 35فیصد آبادی کو انٹرنیٹ تک رسائی حاصل ہے اور ڈیجیٹل جمہوریت کے تصور‘ ہدف اور اِس مقصد میں کامیابی کی راہ میں یہی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ پاکستان میں مستقبل کی حکومتوں کو بہت کچھ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے جیسا کہ وہ جمہوریت کو مضبوط اور نوجوانوں کو بااختیار بنانے کیلئے ٹیکنالوجی کا استعمال کس طرح سے کرتے ہیں۔ قومی فیصلہ سازوں کو نوجوانوں کی شمولیت اور ان کے مستقبل کو تشکیل دینے کیلئے ’شکایت پورٹلز‘ کے قیام سے ایک قدم آگے بڑھنا ہوگا ان کو اپنے تحفظات کا اظہار کرنے‘ اظہار خیال‘ اصلاحات سے متعلق نت نئے تصورات اور انفارمیشن ٹیکنالوجی سے متعلق قوانین و قواعد میں تبدیلیوں (ترامیم) کی سفارش کرنی چاہئے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ نوجوانوں مایوس نہ ہوں اور اُن کی خداداد صلاحیتیں اور ذہنی استعداد ضائع نہیں ہونی چاہئے۔ اکیسویں صدی کے تقاضوں کو سمجھنے اور درپیش بحرانوں (مشکلات) سے نمٹنے کے لئے طرزحکمرانی سے معاشرت تک ڈیجیٹل وسائل سے استفادہ اور فروغ ضروری ہے۔عام انتخابات اور عمومی سیاسی سرگرمیوں میں نوجوان بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ شدید گرمی ہو یا سردی نوجوان ہی گھر گھر دستک دے رہے ہوتے ہیں اور اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے میں بھی یہی طبقہ پیش پیش نظر آتا ہے تاہم انتخابات ختم ہونے کے ساتھ ہی نوجوانوں کی اہمیت بھی ختم ہو جاتی ہے۔ روزگار کی تلاش اور تعلیم کے بہتر مواقعوں کی تلاش کیلئے اِن کی جدوجہد انفرادی حیثیت اختیار کر جاتی ہے۔ یہ قانون سازی کا حصہ نہیں ہوتے۔ قومی ترجیح نہیں ہوتیاور شاید یہ دانستہ طرزعمل ہے کہ نوجوانوں کے کردار کو جان بوجھ کر محدود رکھا گیا ہے جسے لامحدود کرنے کیلئے ’ڈیجیٹل جمہوریت‘ ہی واحد حل ہے۔ عموماً کسی معاملے سے متعلق رائے کی اچانک تبدیلی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص کا ’سافٹ وئر‘ اپ ڈیٹ کر دیا گیا ہے بالکل اِسی طرح پاکستان میں جمہوریت کے سافٹ وئر کو بھی اَپ ڈیٹ کرنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ پاکستان کی 64 فیصد آبادی کی عمر 30 سال یا اِس سے کم ہے! ذہن نشین رہے کہ جب ہم ڈیجیٹل جمہوریت کی بات کر رہے ہوتے ہیں تو اِس کی مثالیں چین سے لیکر یورپی ممالک اور امریکہ تک پھیلی دکھائی دیتی ہیں جنہیں مصنوعی ذہانت اور ڈیٹا سائنس کے ذریعے ہر دن پہلے سے زیادہ مضبوط و محفوظ بنایا جا رہا ہے۔دنیا پر ڈیجیٹل آلات کی حکمرانی ہے لیکن یہ تصورات فوراً قبول نہیں کئے گئے اور اِن کے خلاف مزاحمت کی گئی جیسا کہ نجی ٹرانسپورٹ کی سہولت کو منظم کرنے کے لئے جب ’اوبر‘ نامی ایپ تائیوان میں متعارف کرائی گئی تو ٹیکسی ڈرائیوروں نے اس کے خلاف احتجاج کیا اور صارفین نے ایپ کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا۔ بالکل اِسی طرح پاکستان میں جب الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا تصور پیش کیا گیا تو اِس کی مخالفت کرنیوالوں میں وہ طبقات بھی شامل ہیں جو شفاف انتخابات کا مطالبہ تو کرتے ہیں لیکن حقیقت میں اِنہیں کم خرچ‘ نتائج کے اعتبار سے مستند و معتبر ترین اور شفاف رائے دہی کے عمل (انتخابات) کی ضرورت نہیں ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ پاکستان میں قانون سازی کا عمل نہایت ہی رازداری اور تیزرفتاری سے کیا جاتا ہے اِس طرز عمل کو تبدیل کرنے کیلئے بھی ڈیجیٹل وسائل سے استفادہ کیا جا سکتا ہے مثلاً کسی قانون یا قانون میں ترمیم کے حوالے سے عوامی اور آزاد ماہرانہ (اختلافی) رائے جاننے کیلئے ڈیجیٹل پلیٹ فارمزاور آن لائن نشستوں کا اہتمام کیا جا سکتا ہے۔جو معاشرے ڈیجیٹل اسلوب سے خوفزدہ نہیں اُن کے ہاں ٹیکنالوجی خوبیوں اور اصلاحات کا مؤجب ہے لیکن جن معاشروں میں ڈیجیٹل اسلوب بیداری کی بجائے ممنوعات عام کرنے کیلئے استعمال ہو رہی ہے وہاں حکومت کا عوام اور عوام کا معاشرے سے تعلق کمزور ہو رہا ہے جبکہ ضرورت ڈیجیٹل تعلق کی مضبوطی اور اِس پر بھروسے کی ہے پاکستان میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے فروغ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ’دھوکہ دہی‘ ہے۔ مثال کے طور پر مالیاتی لین دین کے لئے ڈیجیٹل وسائل کا استعمال کرنے والے اکثر ’فراڈ‘ کا شکار ہوتے ہیں اور موبائل صارفین کو درجنوں ایسے پیغامات ملتے ہیں جن میں اُنہیں مختلف طریقوں سے انعامات کی خوشخبری دے کر اُکسایا جاتا ہے کہ وہ لالچ میں آ کر اپنی جمع پونجی سے محروم ہو جائیں! اِس طرح کی سرگرمیوں کے ذمہ دار پیشہ ور ’فریب دہندہ‘ ہوتے ہیں جو اپنے ’آئی پی‘ ایڈریس (مقام و شناخت) کو چھپا کر صارفین کی حساس معلومات سے کھیلتے ہیں۔ یہ لوگ بینکوں کے ’یو اے این نمبروں‘ بھی استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جس سے اکثر صارفین کو دھوکہ ہو جاتا ہے۔ اِس صورتحال (آن لائن دھوکہ دہی) کے تدارک کیلئے نجی اور سرکاری مالیاتی اداروں کو ’ڈیجیٹل بینکنگ نظام‘ کو اپ گریڈ کرنے میں سرمایہ کاری کرنی چاہئے صارفین کو چاہئے کہ وہ کسی بھی صورت سوشل میڈیا ٹیکسٹنگ یا میسجنگ ایپس کے ذریعے رابطہ کرنیوالے کسی بھی شخص کو اپنے بینک اکاؤنٹ یا اپنے اہل خانہ سے متعلق کوائف بارے معلومات (تفصیلات) نہ دیں۔