مجسٹریسی نظام 

ہربار کچھ عرصہ کے بعد مجسٹریسی نظام کی بحالی کی ضرورت کے حوالہ سے صدائیں بلندہونے کاسلسلہ جاری ہے جن لوگوں نے یہ سسٹم دیکھاہواہے وہی اس کی افادیت سے واقف ہیں نئی نسل کیلئے مجسٹریٹ کالفظ بھی نامانوس سا ہوگیاہے حالانکہ مجسٹریٹ کسی زمانے میں بہت بارعب لفظ ہوا کرتاتھا اس کے لفظ سنتے ہی آنکھوں کے سامنے ایک طاقتور سیاسی افسر کا چہرہ آجاتا جس کاکام عمومی مسائل اور جرائم پر فوری سزائیں دیناہوتاتھا انگریز دور میں پہلی باریہ عہدہ متعارف کرایا گیا جس کے بعد سے یہ لفظ زبان زد عام ہوتاگیا  تاہم ابتداء میں یہ زیادہ استعمال ہونے والا لفظ نہیں تھا اس لفظ کا اصل ماخذ تو لاطینی زبان ہے تب اسےMagistratus کہا جاتا تھا جو دو الفاظMagister اورMagnus سے مل کر بنا تھاMagister کا مطلب ماسٹر‘ آقا یا مالک ہے جبکہ Magnus سے مراد عظیم کے ہیں‘ قدیم روم میں Magistratus سے مراد ریاست کے اعلیٰ ترین ادارے ہوا کرتے تھے انگریزی زبان میں یہ لفظ  وسطی دور کی انگریزی کے لفظ Magistradسے ماخوذ ہے جس سے مراد انتظامی اختیارات استعمال کرنے والا افسر ہوا کرتا تھا فرانسیسی زبان میں بھیMagistrat کا لفظ موجود ہے گویا مجسٹریٹ کا مطلب ریاست کی طرف سے تفویض کردہ اہم نوعیت کے اختیارات استعمال کرنے والا افسر ہی رہا ہے اور یہی سسٹم پھر انگریزوں نے ہندوستان میں بھی چلایا اوراس کامیابی کے ساتھ چلایاکہ مٹھی بھرافسران کے ذریعہ پورے برصغیرمیں بھی کامیابی کے ساتھ حکومت کی کیونکہ ان کے دور کے انتظامی افسران اپنے اختیارات پر سمجھوتہ نہیں کیا کرتے تھے یہی وجہ تھی کہ جب برصغیر آزاد ہوا تو پاکستان اورہندوستان دونوں نے انگریزوں کے دیئے ہوئے اسی نظام کو چلتے رہنے دیا اور یہ نظام کافی عرصہ تک کامیابی کے ساتھ چلتارہابعدازاں یہ اعتراضات سامنے آنے لگے کہ انتظامی افسران آخر عدالتی اختیار ا ت کیونکر استعمال کررہے ہیں ایک تحریک چلائی گئی کہ عدلیہ اور انتظامیہ کو الگ ا لگ کیا جائے اورپھر ایک عدالتی فیصلے کے تحت انتظامی افسران سے عدالتی اختیارات لیتے ہوئے مجسٹریسی سسٹم ہی ختم کردیاگیا تاہم ماہرین اور سابق افسران اس بات پر متفق ہیں کہ مجسٹریسی نظام کی بحالی سے گورننس کی صورت حال کو سنبھالادینے میں بہت مد دمل سکتی ہے اس سلسلہ میں سابق چیف سیکرٹری عبداللہ صاحب کے خیالات اہمیت کے حامل ہیں راقم کے ساتھ ایک موقع پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے جو کچھ کہاتھا اس کاخلاصہ پیش خدمت ہے ”ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کا عہدہ درحقیقت سیفٹی والووکی حیثیت رکھتا تھا آج بھی اگر ایگزیکٹیو مجسٹریسی کا نظام بحال کیاجائے تو صورتحال بہتر ہو سکتی ہے یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ صرف قیمتیں چیک کرنے سے کچھ نہیں ہوگا گورننس کنٹرول کرنے کیلئے مجسٹریسی رول انتہائی ضروری ہے اگر مجسٹریٹس کے پاس عدالتی اختیارات تھے تو آئین اورقانون کے مطابق ہی تھے مجسٹریل سسٹم کی بدولت اوورسائٹ کا نظام موجود تھا جب یہ نظام ختم ہوا تو گورننس خراب ہوتی چلی گئی ظاہر ہے کہ جب قانون اور طاقت کا استعمال ٹھیک طریقہ سے نہ ہو تو گورننس خراب ہوتی جاتی ہے چنانچہ آج مجسٹریٹس کا ہونا ضروری ہے گورننس کی مضبوطی کیلئے یہ نظام ہونا چاہئے“عبداللہ صاحب نے وضاحت کرتے ہوئے یہ بھی کہاتھاکہ  مجسٹریٹوں  نے کبھی ماورائے عدالت اختیارات استعمال نہیں کئے ان کو اختیارات کے استعمال کیلئے ہائی کورٹ کی اجازت حاصل تھی مجسٹریسی نظام کے دو بڑے فائدے تھے ایک تو مجسٹرٹ عدالتوں میں بیٹھ کر فیصلے کیا کرتے تھے دوسرے انتظامی معاملات میں بھی اہم کردار ادا کیا کرتے تھے امن وامان کامسئلہ جب پیدا ہوتا تو مجسٹریٹ پولیس کے ساتھ ساتھ رہتا اور پولیس اس کی ہدایات پر عملدرآمد کی پابند ہوا کرتی تھی البتہ انہوں نے یہ بھی کہاتھاکہ  تب حالات کچھ اور تھے اورآج حالات کافی بدل گئے ہیں لہٰذا مجسٹریسی نظام کی بحالی کے ساتھ ہی مسائل کے حل کے حوالے سے حتمی رائے دینا آسان ہرگز نہیں ان کے ساتھ ساتھ ایک اورسابق چیف سیکرٹری اعجاز رحیم نے ایک انٹرویومیں راقم کو بتایاتھاکہ وہ ایک پورا ضلعی نظام تھا ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ہوتے تھے پھر سی آر پی سی کے تحت تھانہ مجسٹریٹ تھے یہ افسران عدالتی اختیارات کے معاملہ میں ہائی کورٹ کو جواب دہ تھے جبکہ انتظامی اختیارات کے معاملہ میں ڈپٹی کمشنر کے سامنے پابند تھے ڈپٹی کمشنر پھر بھی ان سے پوچھ گچھ کر سکتا تھا آپکے تھانے کی حدود میں بدامنی کیوں ہے؟ گویا ایک مکمل نظام تھا‘ اب صرف ایک پہیہ چلانے سے کچھ نہیں ہوگا بھارت میں یہ نظام آج بھی چل رہا ہے اگر موجودہ صورتحال میں اس کو من وعن بحال کر دیا جائے تو کچھ نہ کچھ بہتری کی امید رکھی جانی چاہئے تاہم راتوں رات بہتری کے خواب دیکھنے نہیں چاہئیں“اسی نظام کے حوالے سے ایک ملاقات میں سابق چیف سیکرٹری اور سابق نگران وفاقی وزیر داخلہ  محمد اعظم خان کا کہنا تھاکہ  اس سسٹم کے خاتمہ سے کافی مسائل پیدا ہوئے کیونکہ ڈی سی کا کردار بہت مضبوط تھا وہ نہ صرف ایک منتظم ہوا کرتا تھا بلکہ ریونیو کلیکٹر کے فرائض بھی انجام دیا کرتا تھا پھر بحیثیت ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اس کے پاس انتظامی اختیارات بھی ہوا کرتے تھے یوں امن وامان کنٹرول کرنا اس کی ذمہ داری ہوتی تھی  موجودہ دور میں امن وامان کی صورت حال کی  بہتری‘ شہری مسائل کے حل کیلئے اب مجسٹریسی نظام کو بحال کرنا ضروری ہے ڈی سی کو بااختیار بنانا ضروری ہے اس سے  بے لگام پولیس بھی قابو میں آجائے گی“ماہرین میں سے سابق و فاقی  سیکرٹری داخلہ تسنیم نورانی اس حوالے سے کہتے ہیں“ اس وقت حکومتی رٹ کی بحالی اور نفاذ کیلئے کوئی سنٹرل کوآرڈینیٹر ہی نہیں پولیس کا کردار Preventive ہر گز نہیں وہ تو واقعات کے بعد حرکت میں آتی ہے  اسی مقصد کیلئے ڈپٹی کمشنر کا ادارہ تھا آج اگر بدامنی کے خلاف جنگ میں کامیابی حاصل کرنا مقصود ہے تو سب سے پہلے نچلی سطح پر حکومتی عملداری کی بحالی ضروری ہے اور اس کے لئے مجسٹریسی نظام کو اب بحال کرنا ہی پڑے گا“گویا تمام ماہرین کسی نہ کسی طور اس امر پر متفق ہیں کہ مجسٹریسی نظام کی بحالی ضروری ہے تاہم شرط یہ ہے کہ پھر متعلقہ افسران کو ضروری اختیارات بھی دیئے جائیں بصورت دیگر بے اختیار افسران سے بہتری کی امید رکھنا غلط ہوگا اس سلسلہ میں سپریم کورٹ میں شاید کیس زیر سماعت بھی ہے کیاہی بہتر ہوکہ چارو ں صوبے اور وفاق اتفاق رائے کے بعد متعلقہ قوانین میں ترمیم کرکے اس سسٹم کو بحال کرکے گورننس کی بہتری کے لیے اقدامات میں تیزی لائیں۔