کہیں تجھ کو نہ پایا گر چہ ہم نے اک جہاں ڈھونڈا

دو ایک دن تو موسم کی حدت نے خوب خوب خبر لی اور ایسی کہ کھل کے سانس لینے کو بھی یار لوگ ترس گئے تھے، جاننے والے جانتے ہیں کہ ان دنوں گھر کے باہر اور اندر ایک سی صورت حال کا سامنا ہے۔ باہر ”وہ حبس تھا کہ لو کی دعا مانگتے ہیں لوگ“ اور گھروں کے اندر ”جن پہ تکیہ تھا وہ پتے بھی ہوا نہیں دے پا رہے تھے۔ کیونکہ وہ پتے خود جن پر تکیہ کئے ہوئے تھے ان دنوں انہوں نے بھی اوبلائج کرنا چھوڑ رکھا ہے ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے موسموں سے لے کر انسانی روئیوں میں اور ہمارے رہن سہن میں کیسا اور کتنا بدلاؤ آ گیا ہے، یہ سنتے سنتے اب تو کان پک گئے ہیں کہ ”ہم سائنس اورٹیکنالوجی کے عروج کے دور میں سانس لے رہے ہیں، مصنوعی بارشیں برسائی جا رہی ہیں مگر ہم تو مصنوعی ہوا کے ایک ہلکے سے جھونکے کو بھی ترس رہے ہیں۔ اگر ہر گھر میں نہیں تو دوسرے تیسرے گھر میں تو متبادل انظام کے طور پر پیٹ کاٹ کر کچھ بندوبست کر لیا گیا تھا۔ مگر کیا کیا جائے کہ وہ سارے آلات اب مردہ پڑے ہوئے ہیں کیونکہ جس آکسیجن کے سہارے وہ آلات سانس لیتے ہیں وہ آکسیجن ان کی پہنچ سے بہت دور ہو گئی ہے، یا پھر کر دی گئی ہے۔ پورا گھر چپ ہو کر رہ جاتا ہے،کوئی کیا بات کہے،کس سے شکوہ کرے اور کرے بھی تو ایسے ”نالوں کے جواب کہاں آتے ہیں“ سو یہاں وہاں سارے لوگ چپ کی بکل مار کر بیٹھے ہو ئے ہیں،کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ”قہر درویش بجان درویش“ کچھ دلسوزی رکھنے والے دل مصور پاکستان کے اشعار کی سرگوشی بھی کررہے ہوتے ہیں۔
 یہ نڈراما دکھائے گا کیا سین 
 پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ
کہیں کہیں سے سوشل میڈیا کے کچھ منچلے ڈیپریشن سے تنگ آ کر ا س صورت حال پر اپنی آواز کو ممکنہ حد تک ’لاؤڈ‘ بھی کر لیتے ہیں لیکن بسا اوقات ایسا لگتا ہے کہ ان کی آ واز میں وہ قوت ہی نہیں جو ایسے حالات میں یار لوگوں کے لہو کو گرماتی ہے اور پھر کسی بڑے انقلاب کا روپ دھار لیتی ہے، کیونکہ اس آواز میں پڑی ہوئی دراڑیں صاف دکھائی دیتی ہیں۔
 کیسے دن ہیں کیسی رت ہے ہر چہرہ سہما سہما ہے
 کب لاوا نکلے گا باہر،پہروں سوچتا رہتا ہوں 
سہمے ہوئے چہرے بس ہاتھ پر ہاتھ دھرے کسی
 اچھی اور روشن صبح کے انتظار میں تو ضرور رہتے ہیں مگر اس لئے از خود کچھ نہیں کر پاتا البتہ ایک تخیل اور فین ٹیسی سے وہ دوستی بنائے رکھتے ہیں اور اسی سنہری رتھ پربیٹھ کر وہ بڑی سہولت سے اس زمانے میں پہنچ جاتے ہیں جب سائنس اور ٹیکنالوجی نے ابھی ان کی صدائیں بانجھ اور سوچیں بنجر نہیں کی تھیں۔ میں خود اکثر اوقات ہوا کے ایک ٹھنڈے اور پرسکون ہوا کے جھونکے کی تلاش میں اپنے پرائمری سکول کے جماعت سوئم کے اس کمرے پہنچ جاتا ہوں جس کے باہر قد آدم درخت اور چھوٹے گملوں میں کچھ پودے تھے جو کمرے کے اندر سے بھی نظر آتے تھے گرمی کی چھٹیوں سے پہلے کا ایک مہینہ نسبتاً گرم ہوتا تھا مگر کمرے کے عین وسط میں ایک بڑا پنکھا لگا ہو تا یہ پنکھا ایک لمبے مضبوط ڈنڈے اتنے ہی سائز کے کپڑے پر مشتمل ہو تا جیسے کمرے کے شہتیر کے ساتھ رسیوں کی مدد سے لٹکایا جاتا تھا، اور ایک لمبی رسی بھی اس کے ساتھ بندھی ہوتی جسے کلاس میں سے ذرا صحت مند لڑکے باری باری کھینچتے اور کشتیوں کے بادبان کی طرح جب وہ کپڑا لہراتا تو جیسے پورا کمرہ ہوا سے بھر جاتا، اس رسی کو کھینچتے ہوئے باقی لڑکوں کی آواز میں آواز ملا کر کم و بیش چیخ چیخ کر جب پہاڑوں کے رٹے لگا رہے ہوتے وہ خوشی اور مستی کی کیفیت آج بھی سرشار کر دیتی ہے اور اس پنکھے کی ٹھنڈی ہوا سانسوں کو مہکا دیتی ہے اور آنکھوں میں جیسے محمد سردار استاد اور ہیڈ ماسٹر غلام محمد کے مہرباں چہرے بھیگنے لگتے ہیں مجھے گھر سے سکول میں کھانے کے لئے پیسے نہیں ملتے تھے مگر بریک میں (یہ بریک کا لفظ کتنا اوپرا اوپرا لگ رہا ہے) مطلب ”تفریح“ کے وقت مجھے سردار استاد ایک آنہ دیا کرتے جو اس وقت ایک بڑی عیاشی تھی، وہی میرے پسندیدہ ٹیچر بن گئے تھے، لیکن
 جب میں اگلے درجے میں پہنچا اور ہنس مکھ اور بلا کے خوش گفتار اپنے ایک پڑوسی مہر علی استاد کی کلاس میں پہنچا تو حیران کن طور پر مجھے وہ بھی تفریح کے وقت ایک آنہ دینے لگے تھے۔ یہ تو جب میں ہائی سکول پہنچا تو ایک دن ہمارے حجرے میں موجود مہر علی استاد جو ٹیچنگ چھوڑ کر ٹیلی فون کے محکمے میں بھرتی ہوئے تھے اور جلد ہی پھر کڑاکے کی سردی کے موسم میں ان کی ٹرانسفر مری ایکس چینج ہوگئی تھی،وہ چھٹی پر آئے تھے اور کسی کے پوچھنے پر کہ دسمبر میں مری کہاں جا پہنچے تو کہنے لگے یہ سب کیا دھرا میری اپنی والدہ کا ہے، کسی نے از راہ تفنن پوچھا کیا انہوں نے بھی ٹیلی فون کا محکمہ جوائن کر لیا ہے؟ ہنس کر کہنے لگے نہیں مگر وہ صبح شام مجھے ایک ہی دعا دیتی ہے کہ ”یا اللہ میرے بچے کو گرم ہواؤں سے بچا کر رکھنا“ تو دعا قبول ہو گئی اور میں ٹھنڈی یخ بستہ ہواؤں میں جا پہنچا۔ اس دن میں نے ان کا شکریہ بھی ادا کیا کہ پرائمری سکول کے زمانے میں وہ مجھے تفریح کے وقت ایک آنہ دیا کرتے تھے اور اتنے عرصہ کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ میرے برادر بزرگ مرحوم سید اعجاز بخاری میرے اساتذہ کو مہینہ بھر کے پیسے دیا کرتے تھے،جو مجھے تفریح کے وقت دیتے تھے۔ سوچتا ہوں کہ مصنوعی ہوا کے ایک جھونکے کو ترسنے والوں کے پاس اگر یادوں کی یہ سکھ بھری گٹھڑی نہ ہوتی تو یہ دن کتنے مشکل اور خالی خالی ہو جاتے،غنیمت ہے یہ اب جو مہربان بادلوں کا تازہ پھیر ا لگا ہے اس نے بہت سے چہروں کے تناؤ کو بڑی حد تک کم کر دیا ہے،تاہم گھروں کے اندر کی صورت حال میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آ رہی ہے چلئے اپنی یادوں کے حوالے سے تو ہم خود کفیل ہیں ابوالکلام آزاد کی ”غبار خاطر“ میں کہیں ایک بہت مزے کی بات لکھی ہے اور یہ بات بھی پڑھتے اور لکھتے ہوئے ایک خوشگوار موسم کہیں اندر سے بھگو کر رکھ دیتا ہے وہ کہتے ہیں 
 ”جنگل کے مور کو کبھی باغ اور چمن کی جستجو نہیں ہوتی اس کا چمن اس کی بغل میں موجود رہتا ہے۔ جہاں کہیں پر کھول دے گا۔
 ایک چمنستاں ِ بو قلموں کھل جائے گا“ 
 شیخ ابراہیم ذوق کا شعر بھی ہے 
 کہیں تجھ کو نہ پایا گر چہ ہم نے اک جہاں ڈھونڈا
 پھر آ خر دل ہی میں پایا، بغل ہی میں سے تو نکلا