لویہ جرگہ؟


افغانستان میں متفقہ آئین کی تشکیل بشمول قومی ترانے اور قومی پرچم کے تعین جیسے ضمنی امور قومی ترجیحات بنا لئے گئے ہیں جبکہ ملک کو درپیش ’انسانی بحران‘ کے حل اور افغان عوام کی مشکلات و مصائب اپنی جگہ ترجیح (نظر کرم) کے منتظر ہیں۔ دیر آید درست آید لیکن افغان عوام اور دنیا کی نظروں میں دھول جھونکتے ہوئے ’لویہ جرگہ‘ کی طرز پر تین روزہ اجتماع کا آغاز تیس جون سے کیا گیا ہے‘ جس میں قریب تین ہزار مدعو قبائلی عمائدین اور علمائے کرام شرکت کر رہے ہیں اور اِس اہم قومی نشست میں جن دیگر (ضمنی) امور سے متعلق فیصلہ سازی متوقع ہے اُن میں خواتین کی تعلیم اور اُن کے ملازمتی حقوق بھی شامل ہیں اور اگر دنیا کے نکتہئ نظر سے دیکھا جائے تو یہ افغانستان کو درپیش تین اہم و بنیادی مسائل میں سے ایک ہے۔ ذہن نشین رہے کہ اگست دوہزاراکیس سے طالبان افغانستان پر بلاشرکت غیرے حکمرانی کر رہے ہیں۔ یہ ہر سیاہ و سفید کے مالک ہیں تاہم عالمی سطح پر اِن کی حکومت کو جن تین وجوہات کی بنا پر تسلیم نہیں کیا جا رہا اُن میں خواتین کی تعلیم و ملازمت کے حقوق‘ انسانی حقوق کے تحفظ کی یقین دہانی‘ افغان عوام کی نمائندگی کرنے والی تمام سیاسی جماعتوں (نسلی لسانی گروہوں) کو اقتدار میں حسب آبادی تناسب دینے اور افغانستان کی سرزمین یا وسائل دہشت گردی کے خلاف استعمال نہ ہونے کی ضمانت جیسے اقدامات شامل ہیں اور اِنہی مطالبات (محرکات) کو تسلیم کروانے کے لئے بطور دباؤ افغانستان کے غیرملکی اثاثے بھی تاحال منجمند ہیں لیکن چونکہ ابتدأ میں افغان طالبان کسی ایسے زعم میں مبتلا تھے کہ وہ مقامی وسائل سے تمام مسائل پر قابو پا لیں گے اور یہی وجہ تھی کہ انہوں نے اپنی حکومت کو عالمی سطح پر منوانے میں خاطرخواہ دلچسپی نہیں لی لیکن قریب گیارہ ماہ کی حکمرانی کے بعد اُنہیں محسوس ہو رہا ہے کہ افغانستان جن معاشی مشکلات اور بحرانوں سے گزر رہا ہے‘ اُنہیں مدنظر رکھتے ہوئے یہ بات انتہائی ضروری ہو گئی ہے کہ افغانستان میں ایسی حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے جو عالمی برادری کے اطمینان (تسلی و تشفی) کے مطابق افغان عوام کی نمائندگی و حقوق کی ادائیگی جیسے ”متنازعہ و دوغلے عالمی معیار“ کے مطابق ہونا چاہئے۔ ثابت ہوا ہے کہ آج  سرمایہ دارانہ نظام کی گرفت اِس قدر قوی ہو چکی ہے کہ آج کی دنیا میں کوئی بھی ملک اپنی مرضی سے قانون سازی یا اپنے دفاع کے لئے وہ صلاحیتیں حاصل نہیں کرسکتا‘ جو دوسروں نے حاصل کر رکھی ہیں اور جن کے بل بوتے پر وہ پوری دنیا کے مالیاتی‘ تجارتی‘ معاشی‘ تعلیمی و سیاسی نظام پر قابض ہو چکے ہیں اور اب یہ بات تقریباً ناممکن ہی ہو چکی ہے کہ کوئی بھی ملک یا ممالک اپنی شناخت و تشخص کے مطابق (من مانی کرتے ہوئے) امور مملکت تشکیل دے کہ جو عالمی قوت (امریکہ) کے وضع کردہ مفادات اور خودساختہ عالمی اصولوں کے لئے چیلنج ہوں۔ افغانستان کے سیاسی و انتظامی بندوبست (نظم و نسق) پر انسانی بحران غالب ہے۔ مشرقی افغانستان میں حالیہ زلزلے سے ایک ہزار ہلاکتیں اور موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث افغانستان کے کئی علاقوں میں خشک سالی تو کئی علاقوں میں بنا موسم برفباری کے باعث زرعی شعبہ اور معیشت و معاشرت معاشی مشکلات کے ناقابل برداشت و ناقابل بیان (تکلیف دہ) دور سے گزر رہی ہے اور اِس صورتحال سے نکلنے کے لئے ’لویہ جرگہ‘ کی طرز پر طالبان حکومت نے پہلی مرتبہ مشاورتی اجلاس طلب کیا‘ جسے اگرچہ ”لویہ جرگہ“ ہی کا نام دے کر عالمی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن اگر اِس مشاورتی عمل میں خواتین کو بھی شریک کر لیا جاتا تو اِس سے افغان طالبان کی نیک نیتی اور مطلوب عالمی تعاون و تائید حاصل ہو جاتی‘ جو ناگزیر ضرورت بن چکی ہے۔ یہ امر بھی پیش نظر رہنا چاہئے کہ افغانستان کی سرزمین اور حکومتی وسائل دہشت گردی کے لئے استعمال نہ کرنے کی بارہا یقین دہانی کے باوجود بھی افغانستان کے ہمسایہ ممالک بالخصوص پاکستان کے تحفظات اپنی جگہ موجود ہیں اور یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ آج بھی پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات اور انتہاپسندی کے تانے بانے کہیں نہ کہیں جا کر افغانستان سے جا ملتے ہیں۔
 پشاور کی مرکزی شیعہ مسجد پر نماز جمعۃ المبارک کے اجتماع پر دہشت گرد حملے میں ملوث کرداروں اور سہولت کاروں کی افغانستان میں تربیت اور اُنہیں افغانستان سے پاکستان کے اندر دہشت گردی کے اہداف دینے کے شواہد کا تبادلہ افغان طالبان سے بھی کیا گیا ہے اور ایک ایسی صورتحال میں جبکہ ہمسایہ ممالک کے بھی تحفظات عملاً دور نہ کئے جا رہے ہوں تو کس طرح اِس عجوبے کی توقع کی جا سکتی ہے کہ افغان (طالبان) حکومت کو عالمی محاذ پر کامیابی حاصل ہوگی۔
 علاؤہ ازیں یہ ضرورت اپنی جگہ موجود ہے کہ افغانستان میں قومی فیصلہ سازی پر مسلط جماعت جنگی طاقت و تجربے کے بل بوتے پر بُراجمان ہے اور شروع دن سے آج تک اِس بات کی (خلوص نیت) سے کوشش ہی نہیں کی گئی کہ طرزحکمرانی‘ داخلی و خارجی حکمت ِعملیوں اور بالخصوص سماجی و مالیاتی مسائل کے بارے میں افغان عوام کی رائے معلوم کی جا سکے۔ قریب ایک کروڑ افغان اپنے ملک کے اندر یا بیرون ملک مہاجرت کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ایک ایسے ماحول میں کہ جہاں سماجی و معاشی تحفظ ناپید ہو وہاں ہر شعبہئ زندگی پر غیریقینی کی مسلط صورتحال کے باعث استحکام و خوشحالی کا دور دورہ نہیں ہوسکتا۔ اگرچہ عالمی برادری اور بالخصوص پاکستان انسانی ہمدردی کے تحت افغان عوام کے لئے کچھ نہ کچھ امداد دے رہا ہے اور پاکستان سے افغانستان کے لئے تجارتی راہداریاں بھی سارا سال چوبیس گھنٹے کھلی رکھی گئی ہیں لیکن اِس کے باوجود افغانستان کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے لئے عالمی تائید و نصرت کی ضرورت ہے جو من مانی اور شاطرانہ طرزعمل سے نہیں بلکہ اُس عالمی نظام کو ماننے سے ممکن ہے جو اگرچہ مثالی نہیں لیکن دنیاوی حقائق کی تصویر ہے اور آج کی یک قطبی عالمی طاقت کے ساتھ شانہ بشانہ نہ سہی لیکن اُن کے قدموں پر چلنے ہی میں دانشمندی (عافیت) ہے۔ افغان حکومت کو عالمی تائید حاصل ہونے اور انہیں ایک جائز حکومت کے طور پر تسلیم کئے جانے کے بعد‘ اگر افغان طالبان (کڑوا گھونٹ پیتے ہوئے) اپنے طرزحکمرانی میں گنجائش (لچک) پیدا کریں اور ایسی اصلاحات متعارف کرائیں جس میں مالی و انتظامی امور میں بدعنوانی کا شائبہ تک نہ ہو۔ افغانستان میں منشیات کی تیاری اور نشہ آور اشیا بنانے کے لئے کاشتکاری پر پابندی ہو۔ خواتین اپنی تعلیم و دیگر حقوق سے محروم نہ کی جائیں۔ ملک کے کمزور طبقات کی فلاح و بہبود اور اقتدار میں شراکت داری عملاً دکھائی دے اور اُس خوف و دہشت کا بھی خاتمہ ہو‘ جو افغان طالبان کے سخت گیر مؤقف پر مبنی غیرلچکدار بیانیہ ہے تو اِس سے افغانستان کے مسائل اور درپیش بحرانوں کا حل بہرحال ممکن ہے‘ بصورت ِدیگر افغان کی مشکلات و مصائب کم نہیں ہوں گے جو دنیا سے الگ تھلگ ایک ایسی حالت (دور) سے گزر رہے ہیں‘ جس میں ہر کس و ناکس کو بنیادی ضروریات ِزندگی میسر نہیں۔ توجہ طلب ہے کہ افغانستان داخلی طور پر جس غیریقینی کے دور سے گزر رہا ہے اُس کے بارے میں ہمسایہ اور خطے کے ممالک کو بھی تشویش ہے لیکن اِس صورتحال میں افغانستان کی اگر کوئی بھی مدد کر سکتا ہے تو وہ افغان حکمران اور افغانستان کے ہر طبقے کی نمائندگی کے دعویدار ہیں جنہیں یک سو اور متحد ہونا پڑے گا تاکہ جنگ کے بعد شورش زدہ افغانستان کو پھر سے خوشحالی و استحکام کی راہ پر گامزن کیا جا سکے۔